قصیدہ کے ختم ہونے کے بعد اس نے پھر اجازت لی اور اجازت سے پھر قصیدہ سنانا شروع کر دیا۔ وہ بھی فارسی میں تھا اور اس میں بھی حضرت مسیح موعود ہی مخاطب تھے۔ ان کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا کہ آپ کو اﷲتعالیٰ نے دنیا کی ہدایت اور روشنی پہنچانے کے لئے مامور کیا تھا اور آپ کا لایا ہوا نور دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گیا۔ پھر وہ متعدد لوگوں کا نام لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ اس مضمون سے گریز کرتا ہوا دھر آتا ہے کہ کاٹھیا واڑیا ایسا ہی کوئی علاقہ اس نے ہندوستان میں بتایا کہ وہاں بھی گیا اور لوگ وہاں آپ کے نام سے ناواقف تھے اور آپ کی تعلیم کسی تک نہیں پہنچی تھی۔ آخر میں چند شعر آپ کو غیرت دلانے کے لئے تھے اور ان کا مضمون یہ تھا کہ اے مسیح موعود کیا آپ اس علاقے کے لئے مبعوث نہیں ہوئے یا آپ کے پیغام کو اس علاقہ میں ناکامی ہوئی؟ جب وہ آخری شعر پڑھنے لگا تو مجلس مسحور ہوگئی اور خود حضرت مسیح موعود بھی متاثر نظر آتے تھے اور باربار ذکر الٰہی کرتے تھے۔ اس کے بعد اس نے مزید کلام پڑھنے کی اجازت لی اور پھر ایک فارسی نظم پڑھنی شروع کی جس میں احمدیہ جماعت مخاطب تھی۔ اشعار کا مطلب یہ تھا کہ اے احمدیو اﷲتعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور تقویٰ کی عادت اور پرہیزگاری کا مادہ اس میں رکھا اور اگر وہ غلطی کر بیٹھے تو توبہ اور استغفار اور خدا سے معافی مانگنے کی طاقت اور رغبت اس میں پیدا کی۔ لیکن لومڑی میں اس نے خصلتیں نہیں رکھیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایک لومڑی تمہارے اندر رسوخ پیدا کر رہی ہے اور تم اس کے اظہار خیال پر خوش ہو۔ حالانکہ تم نہیں سوچتے کہ جو مادہ انسان میں پیدا کیا گیا ہے۔ اگر انسان ایسی باتیں ظاہرکریں تو تم دھوکے میں آسکتے ہو کہ شاید یہ وہی ہو۔ لیکن اگر ایک لومڑی ایسی باتیں کرے تو پھر دھوکا لگنا کیسے ممکن؟ کیونکہ جو چیز اﷲتعالیٰ نے اس میں پیدا ہی نہیں کی وہ اس سے کس طرح ظاہر ہوسکتی ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۵؍ستمبر ۱۹۵۶ئ)
شیطان کی آنت کی طرح اس طویل رؤیا کی تشریح کرتے ہوئے شاطر سیاست فرماتے ہیں: ’’یہ لومڑی تو وہی ہے جو پدرم سلطان بود کا نعرہ لگاتی پھرتی ہے۔‘‘ پھر لکھا ہے: ’’مجھے رؤیا میں ایک لومڑی کی خبر دی گئی تھی جس سے مراد درحقیقت ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ پدرم سلطان بود ہم فلاں آدمی کے بیٹے ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۳؍ستمبر ۱۹۵۶ئ)
شاطر سیاست نے یہ رؤیا مخرجین میں سے جس شخص پر چسپاں کیا ہے درحقیقت رؤیا کے الفاظ اس شخص کے لومڑی ہونے کی تصدیق نہیں کرتے اور پھر انہوں نے اس کی وضاحت میں کہا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو پدرم سلطان بود کانعرہ لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم فلاں آدمی کے بیٹے ہیں۔ اس اعتبار سے بھی یہ رؤیا اس شخص کے متعلق نہیں ہے۔ کیونکہ اس شخص نے کبھی بھی