شاطر سیاست کا ہے ان میں بھی جب سے یہ نقص پیدا ہوا ہے۔ غرور اور تکبر نے انہیں بری طرح جکڑ رکھا ہے اور ان سے دینداری اور راست بازی بھی اسی وجہ سے کوسوں دور ہے کہ وہ اپنے رؤیا وکشوف کو اپنی بزرگی کی بناء گردانتے ہیں۔ حالانکہ سچی خوابیں تو ہر شخص کو آجاتی ہیں۔ خواہ وہ بازاری عورت ہی کیوں نہ ہو یہ بات صرف میں اپنے پاس ہی سے نہیں لکھ رہا۔ بلکہ مرزاغلام احمد بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے لکھا ہے: ’’ایک اور امر بھی ہے اور وہ یہ کہ بعض فاسق اور فاجر اور زانی اور ظالم اور غیرمتدین اور چور اور حرام خور اور خدا کے احکام کے مخالف چلنے والے بھی ایسے دیکھے گئے ہیں کہ ان کو بھی کبھی کبھی سچی خوابیں آجاتی ہیں اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض عورتیں جو قوم کی چوہڑی یعنی بھنگن تھیں جن کا پیشہ مردار کھانا اور ارتکاب جرائم کا تھا۔انہوں نے ہمارے روبرو بعض خوابیں بیان کیں اور وہ سچی نکلیں۔ اس سے بھی عجیب تر یہ کہ بعض زانیہ عورتیں اور قوم کے کنجر جن کا رات دن زنا کاری کام تھا ان کو دیکھا گیاکہ بعض خوابیں انہوں نے بیان کیں اور وہ پوری ہو گئیں اور بعض ایسے ہندوؤں کو بھی دیکھا کہ جو نجاست شرک سے ملوث اور اسلام کے سخت دشمن ہیں۔ بعض خوابیں ان کی جیسا کہ دیکھا تھا ظہور میں آگئیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲،۳، خزائن ۲۲ ص۵)
ان سطور میں صاف الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ سچے خواب بعض ہندوؤں کو بھی آجاتے ہیں۔ اس لئے ان پر اپنی صداقت کی دلیل ٹھہرانا درست نہیں۔ میرے اس استدلال پر اگر کوئی یہ کہے کہ مرزاقادیانی کی مندرجہ بالا سطور عام انسانوں سے متعلق ہیں۔خواص سے متعلق نہیں اور چونکہ شاطر سیاست عوام الناس میں سے نہیں خواص میں سے ہیں۔ اس لئے ان سطور کو ان پر چسپاں کرنا غلط ہے تو میں مرزاقادیانی کا حسب ذیل اقتباس پیش کئے دیتا ہوں۔ انہوں نے یہاں فرمایا ہے: ’’دنیا میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی حد تک زہد اور عفت کو اختیارکرتے اور علاوہ اس بات کے کہ ان میں رؤیا اور کشوف کے حصول کے لئے ایک غیرفطری استعداد ہوتی ہے اور دماغی بناوٹ اس قسم کی واقع ہوتی ہے کہ خواب وکشف کا کسی قدر نمونہ ان پر ظاہر ہو جاتا ہے… جس کی آمد سے ایک محدود دائرہ تک رؤیا صادقہ اور کشوف صحیحہ کے انوار ان میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ مگر تاریکی سے خالی نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کی بعض دعائیں بھی منظور ہو جاتی ہیں۔ مگر عظیم الشان کاموں میں نہیں۔ کیونکہ ان کی راست بازی کامل نہیں ہوتی۔ بلکہ اس شفاف پانی کی طرح ہوتی ہے جو اوپر سے تو شفاف نظر آتا ہو مگر نیچے اس کے گوبر اور گند ہو۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۱، خزائن ج۲۲ ص۱۴)