سے کوئی جواب نہ بن آیا تو رؤیا سنا دیا۔ کسی نے پوچھا کہ حضور یہ سندھ کے مربعے جو آپ کی ذاتی ملکیت ہیں کہاں سے آئے تو کشف سنا دیا۔ کسی نے استفسار کیا کہ حضور آپ خویش پروری کرتے ہیں تو اس پر عاقبت کا عذاب نازل کر کے اسے منافق قرار دے دیا۔ الغرض وہ رؤیا وکشوف سے اپنا تمام تر کاروبار چلاتے ہیں اور وہ بھولے بھالے لوگ جو خدمت اسلام اور شمع رسالت حضرت محمد مصطفیﷺ کی محبت کی بناء پر شاطر سیاست سے وابستہ ہیں۔ غلط بے جوڑ اور مہمل قسم کے رؤیا وکشوف کا تجزیہ کئے بغیر آمنا وصدقنا کہتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے رؤیا وکشوف من گھڑت اور الہام کی زندہ مثال ہوتے ہیں۔ ہر ذی شعور شخص موجودہ حالات سے آئندہ حالات کا اندازہ کر لیتا ہے۔ چنانچہ شاطر سیاست شیطان کی آنت کی طرح ایک گول مول رؤیا شائع کر دیتے ہیں اور جب وہ حالات معرض موجود میں آجاتے ہیں تو الفضل میں جلی حروف کے ساتھ رؤیا کے عظیم الشان طریق سے پورا ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر رؤیا وکشوف ان کے اپنے ذہن کی پیداوار نہ بھی ہوں تو ضروری نہیں کہ ہر کشف درست ہی ہو۔ چنانچہ مرزاغلام احمد قادیانی کہتا ہے: ’’سنت اﷲ قدیم سے اور جب سے دنیا کی بناء ڈالی گئی ہے اس طرح پر جاری ہے کہ نمونہ کے طور پر عام لوگوں کو قطع نظر اس کے کہ وہ نیک ہوں یا بد ہوں اور صالح ہوں یا فاسق ہوں اور مذہب میں سچے ہوں یا جھوٹا مذہب رکھتے ہوں… سچی خوابیں اور سچے الہام وجاہت اور بزرگی پر دلالت نہیں کرتے… یہ کمال شقاوت اور نادانی اور بدبختی ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ انسان کمال بس اسی پر ختم ہے کہ کسی کو کوئی سچی خواب آجائے یا اس کو الہام ہو جائے بلکہ انسان کمال کے لئے اور بہت سے لوازم اور شرائط ہیں اور جب تک وہ محقق نہ ہوں تب تک یہ خوابیں اور الہام بھی مکر اﷲ میں داخل ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۸،۹، خزائن ج۲۲ ص۱۰)
یعنی سچے خواب فاسق اور غیر صالح لوگوںکو بھی آجاتے ہیں۔ اس لئے یہ نادانی اور بدبختی ہے کہ بعض خوابوں پر اپنی وجاہت اور بندگی کا دعویٰ کیا جائے۔ علاوہ ازیں مرزاغلام احمد قادیانی ایک دوسری جگہ پھر لکھتے ہیں: ’’یاد رکھنا چاہئے کہ شیطان انسان کا سخت دشمن ہے وہ طرح طرح کی راہوں سے انسان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور ممکن ہے کہ ایک خوب سچی بھی ہو اور پھر بھی شیطان کی طرف سے ہو۔کیونکہ اگرچہ شیطان بڑا جھوٹا ہے۔ لیکن کبھی سچی بات بتلا کر دھوکا دیتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص اوّل، خزائن ج۲۲ ص۳)