مندرجہ بالا اقتباس میں اپنے لکھے ہوئے ترجمہ کی تعریف کی گئی ہے۔ یہ ترجمہ جس طرح منصہ شہود میں آتا ہے۔ اگر اسے اپنے نام سے منسوب کرتے ہیں تو یہ بھی زیادتی ہے۔ اس ترجمہ کے تمام تر نوٹ ان کے وظیفہ خوار ملاّ تیار کرتے ہیں اور وہ ان نوٹس کو آپس میں ملادیتے ہیں۔
اب رہا یہ سوال کہ ان ترجموں میں کیا ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس ترجمہ کے تمام تر نوٹس وظیفہ خوار ملاّ تیارکرتے ہیں جن کا علم چند حوالوں کی قطع وبرید تک ہی محدود ہے۔ وہ ترجمہ کیا ہوگا؟ لہٰذا وہ لوگ جنہیں شاطر سیاست کی تفسیر پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس میں قصے کہانیوں، عورتوں کی داستانوں اور مہمل قسم کی بحث وتمحیص کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب ذرا غور فرمائیے کہ قرآن مجید کی تفسیر میں وہ پاکستان کے ایک سیاسی راہنما کی لڑکی کانام لکھ کر اس کی سول میرج کا ذکر کر جاتے ہیں۔ میں نے اس راہنما کا نام اور اس لڑکی کا نام لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔کیونکہ میرے نزدیک انہوں نے کسی کی لڑکی کا ذکر کر کے بہت بڑا گناہ اور بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ میں کسی کی لڑکی کے نجی معاملہ کا ذکر کرنا یا اس کا یہاں نام لکھنا بھی اخلاق سوز حرکت سمجھتاہوں۔ ہاں صرف یہ بتا دیتاہوں کہ انہوں نے اپنی تفسیر کبیر میں مغربی پاکستان کے ایک لیڈر کی لڑکی کا نام لے کر ایک واقعہ بیان کیا ہے جو بداخلاقی کا بدترین مظاہرہ ہے۔
اب قرآن مجید کی تفسیر لکھتے وقت اس قسم کے قصوں کی کیا ضرورت تھی؟ اسی سے ظاہر ہے کہ شاطر سیاست نے زندگی میں جو ایک کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ بھی کتنا بڑا ہے اور اس میں جو مواد پیش کیا ہے وہ کیسا ہے اور پھر اس پہ طرّہ یہ کہ اس قسم کی ہرزہ سرائی کی تعریف اپنے منہ سے کرتے ہیں جو انہی کا حصہ ہے۔
پھر ان کی دوسری ’’میں‘‘ یہ ہے۔ ’’اگر میں مٹ گیا تو محمد رسول اﷲﷺ مٹ جائیں گے۔‘‘ (نعوذ باﷲ)
اب ان سے کون پوچھے کہ حضور کبھی آپ نے آئینے میں اپنی صورت بھی دیکھی ہے یا نہیں؟ کجا پدی اور کجا پدی کا شوربا!
اور انہیں مدیر چٹان حضرت شورش کاشمیری کا یہ فقرہ کون سنائے کہ محمد رسول اﷲﷺ تو کیا آپ حضرت عمرؓ کے بول وبراز کے برابر بھی نہیں ہیں۔ لیکن شاطر سیاست کو دیکھئے اور ان کے دعاوی پر نگاہ دوڑائیے تو معلوم ہوتا ہے کہ مینڈکی کو بھی زکام ہونے لگا ہے۔
اب کی تیسری ’’میں‘‘ یہ ہے۔ ’’میری اطاعت میں خدا کی اطاعت اور میری نافرمانی میں خدا کی نافرمانی ہے۔‘‘