یعنی جو شخص بھی غیراحمدی کو اپنی لڑکی کا رشتہ دیتا ہے گویا وہ ایک کافر کو رشتہ دیتا ہے۔ پھر ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’کل مسلمان جو مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوںنے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہ سنا ہو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘
(آئینہ صداقت ص۳۵)
مندرجہ بالا اقتباس میں شاطر سیاست صاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ وہ شخص جس نے مرزاقادیانی کا نام سنا ہے اور پھر بیعت نہیں کی۔ وہ بھی کافر ہے اور جس نے ان کا نام بھی نہیں سنا وہ بھی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ وہ اپنی ۴۲سالہ خلافت میں علانیہ مسلمانوں کوکافر گردانتے رہے اور اپنے اس عقیدہ پر سختی سے قائم رہے۔ لیکن جب ختم نبوت تحریک نے فضا مسموم کر دی اور تحقیقات کے لئے عدالت بیٹھی تو اس عدالت کے سامنے ان کے قدم ڈگمگا گئے اور انہوں نے خوف کے مارے اپنے عقیدہ میں تبدیلی پیدا کر لی۔ ڈنڈے کی ضرب نے انہیں اپنا پرانا عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ عدالت کے سامنے شاطر سیاست نے جو بیان دیا وہ حسب ذیل ہے: ’’کوئی شخص جو مرزاغلام احمد قادیانی پر ایمان نہیں لاتا وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں قرار دیا جاسکتا۔‘‘ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۲۸)
لیکن (آئینہ صداقت ص۳۵) پر واضح الفاظ میں لکھتے ہیں کہ: ’’وہ شخص جس نے مرزاغلام احمد قادیانی کا نام بھی نہیں سنا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اب اگر انہوں نے اپنا دیرینہ عقیدہ ڈنڈے کی ضرب سے نہیں بدلا اور اگر انہوں نے عدالت کے خوف سے تبدیل نہیں کیا تو پھر نہ جانے ان کے عقیدہ میں تبدیلی کی وجہ اور کیا ہوسکتی ہے؟
گجرات کے ایک وکیل چوہدری محمد حسین چیمہ نے اپنے ایک مضمون فتنہ سیاست میں شاطر سیاست کے عقیدہ تبدیل کرنے کی وجہ ڈنڈے کی ضرب قرار دی تو شاطر سیاست کا سرکاری اخبار الفضل پورا ایک ماہ غم وغصہ میں صفحات سیاہ کرتا رہا۔ حالانکہ ایک مضمون کے جواب میں اگر جواب ٹھوس ہو تو چند سطور بھی کافی ہوتی ہیں۔ لیکن پورا ایک ماہ قسط وار چیمہ کے مضمون کا جواب دیا جاتا رہا۔ لیکن وہ سارے جوابات برائے جواب ہی تھے۔ مثلاً چوہدری محمد حسین چیمہ نے شاطر سیاست کے تبدیلی عقیدہ کی وجہ ڈنڈے کی ضرب قرار دی تو شاطر سیاست کے سرکاری اخبار الفضل نے بہت ٹھوس اور شاندار جواب دیا۔ جس پر جتنی داد دی جائے کم ہے۔ لکھتا ہے: ’’حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ عقیدہ تحقیقاتی عدالت میں نہیں بدلا تھا۔ بلکہ ۱۹۳۵ء میں تبدیل کیا تھا۔‘‘