۳… شاطر سیاست کے نزدیک زنا کرنے والا مجرم نہیں بلکہ دیکھنے والا مجرم ہے اور پھر اس کے خلاف واویلا کرنے والا خطا وار ہے۔
۴… پہلے (خلفائے راشدین) سے بھی ایسی حرکات ہوتی رہی ہیں اور ان کی حرکات دیکھنے والوں پر دوسرے لوگ یقین کر لیتے تھے۔
۵… شاطر سیاست اپنے مریدوں کو تلقین کرتے ہیں کہ انہیں ایسے اعتراضات پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔
ان کے اس اقتباس کا پہلا فقرہ ہے۔ ’’یاد رکھو کہ آنے والا فتنہ بہت خطرناک ہے۔‘‘ اس فقرہ کو پڑھنے سے ذہن میں فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آنے والے فتنہ کی نوعیت کیا ہوگی؟ اس سوال کا جواب انہوں نے اسی اقتباس میں دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’پہلوں سے یہ غلطیاں ہوئیں کہ انہوں نے ایسے لوگوں کے متعلق حسن ظن سے کام لیا جو بدظنیاں پھیلانے والے تھے۔ حالانکہ اسلام اس کی حمایت کرتا ہے۔ جس کی نسبت بدظنی پھیلائی جائے اور اس کو جھوٹا قرار دیتا ہے جو بدظنی پھیلاتا ہے۔‘‘
ان سطور میں لفظ فتنہ کو بدظنی پھیلانے والوں سے تعبیر کیاگیا ہے۔ یعنی ایک فتنہ آنے والا ہے۔ وہ فتنہ کیا ہوگا۔ یہی کہ بعض لوگ میرے (شاطر سیاست) خلاف بدظنیاں پھیلائیں گے۔ گویا انہوں نے یہ بھی نشان دہی کر دی کہ فتنہ اٹھے گا اور وہ یہ ہوگا کہ شاطر سیاست سے متعلق بعض لوگ بدظنیاں پھیلائیں گے۔ اب یہاں یہ دیکھنا پڑے گا کہ بدظنیوں سے کیا مراد ہے۔ سو اس کے لئے شاطر سیاست نے بتادیا کہ اسلام اس کی حمایت کرتا ہے۔ جس کی نسبت بدظنی پھیلائی جائے اور اس کو جھوٹا قرار دیتا ہے جو بدظنی پھیلاتا ہے اور جب تک باقاعدہ تحقیقات پر کسی شخص پر کوئی الزام ثابت نہ ہو اس کو پھیلانے والا اور لوگوں کو سنانے والااسلام کے نزدیک نہایت خبیث اور متفنی ہے۔
اس اقتباس میں انہوں نے بدظنی پھیلانے والے کو اسلامی نظریات کے مطابق مجرم گردانا ہے۔ آئیے! اب دیکھیں کہ اسلام کے نزدیک کس قسم کی بدظنی پھیلانے والا مجرم ہے۔ اسلام نے زنا کے سلسلہ میں یہ قاعدہ کلیہ بنایا ہے کہ جب تک چار گواہ یہ نہ کہیں کہ فلاں شخص کو انہوں نے زنا کرتے دیکھا ہے۔ اس وقت تک کسی ایک شخص کی گواہی قابل قبول نہیں اور اگر کوئی شخص کسی پر زنا کا الزام عائد کرتا ہے اور اس کی تشہیر کرتا ہے اور اس کے لئے چار گواہ پیش نہیں کر سکتا تو وہ مجرم ہے۔ اب اس وضاحت کے بعد ہمیں معلوم ہوگیا کہ ان کے نزدیک بدظنی کا مفہوم زنا کا