عقیدت رکھنے والے مریدوں کو بے وقوف بنانے کے لئے سرور کائناتﷺ پر بھی حملہ کرنے سے نہیں چونکتے اور بڑی جرأت اور ہوشیاری سے کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرتﷺ بھی معصوم نہیں تھے۔ ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘
مجرمانہ ذہنیت، نفسیاتی جائزہ
جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔ خلافت مآب کے نزدیک زنا بالجبر ناجائز اور زنا بالرضا جائز ہے۔ اسی طرح ان کے نزدیک ایسی قبیح حرکات کا ارتکاب کرنے والا قابل سرزنش نہیں۔ بلکہ اس قسم کی حرکت کو دیکھ کر اس کے خلاف آہ وبکا کرنے والا شخص قابل سزا ہے۔ یہاں یہ بات بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ خلافت مآب اور شاطر بے مثل بڑے دوراندیش واقع ہوئے ہیں۔
اپنی حماقتوں کے نتیجہ میں ہونے والے اعتراضات کی پیش بندی کافی عرصہ پہلے کر لیتے ہیں۔ مثلاً جو شخص مجرمانہ ذہنیت رکھتا ہے یعنی جو بدعمل ہے اور اس اعتبار سے اس کے ذہن میں ہر لمحہ جرم کے ارتکاب کا تصور کار فرمارہتا ہے۔ ایسا شخص چونکہ اپنے اعمال سے واقف ہوتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں فلاں غلطی ہے اور بعض لوگوں پر اس غلطی کا آشکار ہونا ضروری ہے۔ اس لئے وہ لوگوں کو پیش بندی کے طور پر تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہی حال شاطر سیاست کا ہے۔ چونکہ انہیں اپنی سیاہ کاریوں کا علم ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ معاشرے میں کسی نہ کسی پر حقیقت حال کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔ اس لئے وہ اپنے بھولے بھالے مریدوں کو ان حالات کے متعلق تیار کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ اپنے مریدوں سے مخاطب ہوتے ہیں: ’’پس یاد رکھو کہ آنے والا فتنہ بہت خطرناک ہے۔ اس سے بچنے کے لئے بہت بہت تیاری کرو۔ پہلوں (خلفائے راشدین) سے یہ غلطیاں ہوئیں کہ انہوں نے ایسے لوگوں کے متعلق حسن ظن سے کام لیا جو بدظنیاں پھیلانے والے تھے۔ حالانکہ اسلام اس کی حمایت کرتا ہے جس کی نسبت بدظنی پھیلائی جائے اور اس کو جھوٹا قرار دیتا ہے جو بدظنی پھیلاتا ہے اور جب تک کہ باقاعدہ تحقیقات پر کسی شخص پر کوئی الزام ثابت نہ ہو اس کا پھیلانے والا اور لوگوں کو سنانے والا اسلام کے نزدیک نہایت خبیث اور متفنّی ہے۔ پس تم تیار ہو جاؤ کہ تم اس قسم کی غلطی کا شکار نہ ہو جاؤ۔‘‘ (انوار خلافت ص۱۰۹)
اس اقتباس کا نفسیاتی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ:
۱… شاطر سیاست پر زنا کا الزام عائد کرنے والے سچے ہیں۔
۲… شاطر سیاست خود اپنے جرم کا اقرار کرتے ہیں۔