مولانا ظفر علی خاں صاحب کے متعلق لکھا ہے: ’’جہاں بھر کا فریبی،مکار، بدبخت، سیاہ کار، بے بصیرت، ناعاقبت اندیش، حیوان بشکل انسان، دیوانہ، بدخواہ انسان، بدقسمت، بدطینت، گرگٹ، ابن الوقت۔‘‘
مولوی محمد علی صاحب سے متعلق ارشاد ہوتا ہے: ’’دھوکا باز،بدگو، معاند، منافق، بے حیا، پطرس ثانی، امیر المنکرین، رئیس المنکرین۔‘‘
بزرگان امت کے لئے: ’’بدخصال،لغو گو، یہودی، حمار، بازاری لوگ، ظالم، جاہل۔‘‘
قاضی احسان اﷲ سابق ایڈیٹر روزنامہ زمیندار سے متعلق لکھتے ہیں: ’’دروغ گو، اندھا، غلط گو، ریا کار، متلون، حریص، بے اصولا، خود غرض، مکار۔‘‘
علاوہ ازیں اپنے ایک نام نہاد خالد بن ولید مولوی ابوالعطاء جالندھری کو ’’طاعون کا چوہا‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
اور پھر الفضل مورخہ ۲۲؍اگست میں خلافت مآب رقمطراز ہیں: ’’مولوی عبدالوہاب عمر کو بیہودہ بکواس کی عادت ہے۔‘‘
الغرض خلافت مآب اور ان کے وظیفہ خوار جب کبھی بھی بات کرتے ہیں تو ان کے منہ سے لفظ بکواس ہی نکلتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کا منہ نہیں غلاظت کا سٹور ہے کہ جب بھی منہ کھلا غلاظت کے ڈھیر باہر آپڑے۔ لیکن خلافت مآب فرماتے ہیں کہ ان کی زبان سے خدا بولتا ہے۔ اب کون بتائے کہ مندرجہ بالا الفاظ خدا کے الفاظ ہیں یا خلافت مآب کے اپنے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ یہ خدا کے نہیں بلکہ خلافت مآب کی اپنی ایجاد ہیں تو پھر بھی یہ ماننا پڑے گا کہ جس شخص کی زبان سے اس قسم کے الفاظ نکلتے ہوں وہ خدا کی طرف سے نہیں اور اس کا خدا سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
خلافت مآب کی زبان پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ لیکن اس موضوع پر مختصر سی بحث کے بعد میں ان کے اخلاق کا تجزیہ کئے دیتا ہوں تاکہ ان کے جملہ دعاوی کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ خلافت مآب نے ۱۹۱۴ء میں زمام خلافت سنبھالی اور اس سے قبل جب ابھی ان کے والد (مرزاغلام احمد قادیانی) زندہ ہی تھے تو ان (شاطر سیاست) پر زنا کا الزام عائد ہوا۔ جس پر ایک تحقیقاتی کمیشن مولوی محمد علی کی زیرنگرانی قائم کیاگیا۔ مخلص مریدوں کو باپ (مرزاغلام احمد) کے ساتھ جو والہانہ عقیدت تھی اس کے تحت اور شاطر سیاست کی والدہ کی عرضداشتوں پر انہوں نے بیٹے (میاں محمود احمد) کو اس الزام سے بری الذمہ قرار دیا۔ لیکن باپ (مرزاغلام احمد قادیانی) کی