چونکہ مصلح موعود ہونے کے لئے پاک ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ اس لئے خلافت مآب کے اخلاق کو زیربحث نہ لانے کی کوشش اور تمنا کے باوجود میں مجبور ہوں کہ ان کی زندگی کو ان تمام دعاوی کے تحت پرکھوں جن کی کسوٹی کے طور پر پاک ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ اس لئے میں ان کی زندگی کو قول اور عمل کی کسوٹی پر پرکھنے سے قبل قارئین سے عموماً اور ان کے مریدوں سے خصوصاً معذرت خواہ ہوں۔
ان کاایک دعویٰ یہ ہے کہ خدا ان کی زبان سے بولتا اور ان سے محبت کرتا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ خدا ان کی زبان سے کیا بولتا ہے۔
الفضل مورخہ ۲۷؍اگست میں رقمطراز ہے: ’’خلیفہ اوّل کی اولاد اوّل درجہ کی کذاب ہوچکی ہے۔‘‘
پھر الفضل مورخہ ۳۱؍اگست میں لکھتے ہیں: ’’جو بھی مسلمان تمہیں ورغلانے کے لئے آتا ہے وہ شیطان ہے۔ پس جب بھی کوئی ایسا شخص تمہارے پاس آئے تم فوراً لاحول پڑھنے لگ جاؤ اور کہو کہ ہمیں مدت سے شیطان دیکھنے کا شوق تھا آج تمہیں دیکھنے کی حسرت پوری ہوگئی۔‘‘
الفضل مورخہ ۱۱؍ستمبر ۱۹۵۶ء میں فرماتے ہیں: ’’اس وقت جن لوگوں نے اس فتنہ میں حصہ لیا ہے وہ نہایت ذلیل اور گھٹیا قسم کے ہیں۔‘‘
الفضل مورخہ ۱۱؍ستمبر ۱۹۵۶ء میں پھر رقمطراز ہیں: ’’میں چوہدری غلام رسول صاحب میجر بھٹہ کا نام کذاب رکھتا ہوں۔ اس لئے ساری جماعت ان کو کذاب سمجھے۔‘‘
علاوہ ازیں مختلف مقامات پر بکواسی، لومڑی، مسیلمہ کذاب، حرامزادہ اور کمینہ صفت کتے کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں۔ خلافت مآب کے علاوہ الفضل جو ان کا سرکاری گزٹ ہے اور جسے ان ہی کی زبان سمجھنا بے جا نہیں اور ان کی خوشامدی جنہیں وہ اپنے خالد بن ولید گردانتے ہیں (نعوذ باﷲ) کی زبانیں بھی ملاحظہ فرمائیے۔
الفضل مورخہ ۱۱؍ستمبر میں ایک صاحب رقمطراز ہیں: ’’ان تمام آدمیوں پر جو اس فتنہ میں شریک ہیں لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘
’’لیکن اخبار مذکور (سفینہ) کی خباثت ملاحظہ ہو کہ میرا نام بھی اس نے ان لعنتیوں میں شامل کر دیا ہے۔‘‘
الفضل مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۳۷ء میں لکھا ہے: ’’ہم فتنہ پرداز منافقین کی کمینہ اور مکروہ حرکات کے خلاف نفرت وحقارت کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘