دیکھ کر علیحدگی اختیار کرے۔ اس شخص سے مریدوں کو عموماً اور اس کے رشتہ داروں کو خصوصاً انقطاع تعلقات کے لئے اس لئے مجبور کیا جاتا ہے کہ کہیں وہ لوگ بھی اس شخص کی باتوں سے متاثر ہو کر خلافت مآب سے متنفر نہ ہو جائیں۔ چنانچہ شاطر سیاست سوشل بائیکاٹ کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہی کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی بھی کسی کو سوشل بائیکاٹ کی سزا نہیں دی۔ فرماتے ہیں: ’’یہ افتراء ہے کہ کسی کو سوشل بائیکاٹ کی سزا دی گئی ہے۔ یہ افتراء ہے کہ ان کے رشتہ داروں یا عزیزوں کو قطع تعلق کے لئے مجبور کیا گیا ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۶؍ستمبر ۱۹۵۶ئ)
مندرجہ بالا سطور میں شاطر سیاست نے اس بات سے صاف انکار کیا ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کو سوشل بائیکاٹ کی سزا دی ہے۔ لیکن الفضل ۲۱؍اکتوبر ۱۹۵۶ء میں فرماتے ہیں: ’’وہ (یعنی ملک فیض الرحمن فیضی) الفضل میں ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار کریں جو مخالفت کر رہے ہیں اور آئندہ ان کو فلاں فلاں رشتہ دار سے ملنے کی اجازت ہوگی۔‘‘
مندرجہ بالا سطور میں شاطر سیاست ایک شخص کے معافی نامہ پر اسے مشروط معانی دیتے ہیں اور شرط یہ رکھتے ہیں کہ وہ شخص میرے (خلافت مآب) فلاں فلاں مخالف سے بیزاری کا اعلان کرے۔ نیز اسے اس شرط پر معافی دی جاتی ہے کہ وہ فلاں رشتہ دار کے سوا اپنے دوسرے رشتہ داروں سے جو میرے (خلافت مآب) مخالف ہیں تعلقات نہیں رکھے گا۔ اب یہ سوشل بائیکاٹ نہیں تو پھر سوشل بائیکاٹ اور کسے کہتے ہیں؟ یہ اور بات ہے کہ شاطر سیاست نے حسب عادت سوشل بائیکاٹ کا نام اظہار بیزاری رکھا ہوا ہے۔ لیکن سوشل بائیکاٹ کا نام بدلنے سے اس کی نوعیت میں تو تبدیلی نہیں ہوتی۔ سوشل بائیکاٹ کا نام چاہے اظہار بیزاری رکھ دیا جائے یا کچھ اور۔ نام کے بدلنے سے مفہوم اور نوعیت اپنی ہی جگہ پر قائم رہتے ہیں۔ میرے اس استدلال پر اگر شاطر سیاست یہ کہیں کہ یہ میری اختراع ہے۔ کوئی ایسی دلیل ہونی چاہئے جس میں سوشل بائیکاٹ کی ہدایت جاری کی گئی ہو تو اس کے لئے میں الفضل سے حسب ذیل اقتباس پیش کرتا ہوں۔
’’احباب جماعت کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو جماعت سے خارج کیاگیا ہے یعنی میاں فخرالدین ملتانی، شیخ عبدالرحمن مصری اور حکیم عبدالعزیز ان کے ساتھ اگر کسی دوست کا لین دین ہو تو وہ نظارت ہذا کی وساطت سے طے کریں۔ کیونکہ ان کے ساتھ تعلقات رکھنے ممنوع ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۷؍جولائی ۱۹۳۷ئ)
اگر شاطر سیاست ان کے کسی وظیفہ خوار کی مندرجہ بالا اقتباس سے بھی تسلی نہ ہو اور وہ اپنے جھوٹ کو ثابت کرنے کی ناپاک خواہش کو اس اقتباس پر بھی ترک نہ کرنا چاہے تو ایک خط پیش