غیر احمدیوں) سے ضروریات زندگی کی اشیاء نہ خریدی جائیں اور صرف احمدی دکانداروں ہی سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء حاصل کی جائیں۔ چنانچہ قادیان میں احمدی دکانداروں سے ناظر امور عامہ اور شعبہ ترقی تجارت کی طرف سے ایک عہد نامہ پر دستخط کرائے جاتے تھے جو حسب ذیل تھا۔
’’میں اقرار کرتا ہوں کہ ہر قسم کی اشیاء کی خریداری صرف اپنے بھائیوں (مرزائیوں) ہی سے کروں گا۔ اگر میں اس عہد کی خلافت ورزی کروں یا میری بیوی یا میرا بچہ یا میرانوکر میرے زیر انتظام رہنے والا میرا رشتہ دار اس کی خلاف ورزی کرے تو میں جو جرمانہ خلیفۃ المسیح تجویز کریں ادا کروں گا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ میں نہ مخفی طور پر نہ علانیہ طور پر کوئی چیز غیر احمدیوں سے خریدوں گا۔ جماعت نے جو معاہدہ ترقی تجارت تجویز کیا ہے مجھے منظور ہے میں اقرار کرتا ہوں کہ ضرویات جماعت قادیان کا خیال رکھوں گا اور مدیر تجارت جو حکم دیں گے اس کی تعمیل کروں گا اور جو حکم ناظر امور عامہ دیں گے اس کی بھی بلا چون وچرا تعمیل کروں گا اور نیز جو اور ہدایات وقتاً فوقتاً جاری ہوں گی ان کی پابندی کروں گا۔ اگر میں کسی حکم کی خلاف ورزی کروں گا تو جو جرمانہ بھی تجویز ہوگا ادا کروں گا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ میرا جو جھگڑا کسی احمدی سے ہوگا اس کے لئے امام جماعت احمدیہ کا فیصلہ میرے لئے حجت ہوگا۔ ہر قسم کا سودا احمدیوں سے خریدوں گا۔معاہدہ کی خلاف ورزی کی صورت میں بیس سے سو روپیہ تک جرمانہ ادا کروں گا اور بیس روپے پیشگی جمع کراؤں گا۔ اگر میرا جمع شدہ روپیہ ضبط ہو جائے تو مجھے اس کی واپسی کا حق نہ ہوگا۔ نیز میں عہد کرتا ہوں کہ احمدیوں کی مخالف مجالس میں بھی شریک نہ ہوگا۔‘‘ (ماخوذ)
اس معاہدہ سے صاف طور پر عیاں ہے کہ شاطر سیاست نے اپنے مریدوں کو مسلمانوں سے تعلقات منقطع کرنے پر مجبور کیا اور کوشش کی کہ ہر اعتبار سے ان کے مرید جمہور سے کٹ جائیں اور ان کے لئے خلافت مآب کا سہارا تلاش کرنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ ہی باقی نہ رہے۔
بیرونی انقطاع تعلقات کے علاوہ شاطر سیاست نے اندرونی طور پر تعلقات کے منقطع کرنے کے رواج کی بناء ڈالی اور اپنے مفاد کے لئے اس پر سختی سے عمل کروایا۔ وہ لوگ جنہوں نے حضور کے ذاتی کارہائے نمایاں دیکھے اور جماعت سے علیحدہ ہوئے ان کے ساتھ بھی اپنے مریدوں کو عموماً اور علیحدگی اختیار کرنے والوں کو خصوصاً تعلقات منقطع کرنے پر مجبور کیا۔ اس روش سے جہاں شاطر سیاست کو یہ مقصود تھا کہ ان کے مرید دوسروں سے لاتعلق ہو جائیں وہاں ان کا مقصد اپنی بدعنوانیوں پر پردہ پوشی بھی تھا۔ چنانچہ جو شخص بھی خلافت مآب کی ذاتی بدعنوانیوں کو