کیا جاتا ہے۔ اس کا اصل میرے پاس موجود ہے۔ وہ خط امیر جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے ایک احمدی کو لکھا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’مکرمی محمد اسلم صاحب سیمنٹ بلڈنگ، لاہور
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ
رپورٹ موصول ہوئی ہے کہ احسان الٰہی ولد منگو کھمار نے اپنی شادی کرانے کے لئے احمدیت سے توبہ کی اور اس شرط پر اس کی شادی ہوگئی اور ۲۶؍نومبر ۱۹۵۶ء کو دعوت ولیمہ ہوئی۔ جس میں آپ نے اور آپ کے اہل وعیال نے شمولیت اختیار کی۔ مکرم جناب امیر صاحب کی اطلاع کے لئے بو اپسی مطلع کریں کہ آپ نے ایسی شادی میں کیوں شرکت اختیار کی۔‘‘ (نقل مطابق اصل) والسلام خاکسار
دستخط: عبدالحئی، نائب امیر جماعت احمدیہ لاہور
اس خط میں شادی میں شرکت کرنے پر اظہار برہمی کیا گیا ہے۔ لیکن شاطر سیاست کہتے ہیں: ’’یہ افتراء ہے کہ کسی کو قطع تعلق کی سزا دی گئی ہے۔‘‘
یعنی شاطر سیاست کے نزدیک اس قسم کے انقطاع تعلق کا نام سوشل بائیکاٹ نہیں بلکہ ان کے نزدیک سوشل بائیکاٹ کسی جانور کا نام ہے اور اس طرح کے تعلقات کے انقطاع کا نام اظہار بیزاری ہے۔، سو اس اعتبار سے اگر کوئی شخص ان پر یہ الزام عائد کرتا ہے تو وہ واقعی افتراء گھڑتا ہے۔ لیکن میراخیال ہے کہ اگر شاطر سیاست پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ وہ اظہار بیزاری کراتے ہیں اور اس سے مراد چاہے سوشل بائیکاٹ ہی ہو تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس کی تردید نہیں کریں گے۔ پس جیسا کہ میں اس سے پہلے بتا چکا ہوں کہ شاطر سیاست نے بعض الفاظ کے نام بدل دئیے ہوئے ہیں۔ مثلاً آمریت کا نام جمہوریت، بادشاہت کا نام خلافت، سیاست کا نام مذہب۔ اسی طرح انہوں نے سوشل بائیکاٹ کا نام بھی اظہار بیزاری رکھ دیا ہے۔ اب جو شخص بھی ان پر سوشل بائیکاٹ کا الزام عائد کرتا ہے تو وہ فوراً حلفیہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے سوشل بائیکاٹ نہیں کیا۔ کیونکہ وہ تو سوشل بائیکاٹ کو جانور سمجھتے ہیں اور اظہار بیزاری سے مراد وہی مفہوم لیتے ہیں جو ہم سوشل بائیکاٹ کا کرتے ہیں۔ سو معلوم ہوا کہ سوشل بائیکاٹ کی تردید شاطر سیاست مفہوم کے اعتبار سے نہیں کرتے ہیں۔ واﷲ! کیا منطق ہے۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
اس سلسلہ میں ایک عدالت کے فاضل مجسٹریٹ کی چند سطور صفحہ قرطاس کی نذر کی جاتی