بات کے سو فیصد منافی ہے اس کا کسی دوسرے کو طعنہ دینا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شرابی کسی دوسرے شرابی کو شراب پینے کا طعنہ دے۔ باقی رہا یہ سوال کہ ربوہ کی زمین ان کی ذاتی ملکیت ہے۔ لہٰذا وہ کسی دوسری جماعت کو وہاں دفتر کھولنے یا تبلیغ کرنے کی اجازت کیوں دیں؟ تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ روس کی ساری زمین قومی ملکیت ہے۔ یعنی روس میں اراضی کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ بلکہ وہاں کی حکومت ہی اس کی مالک ہے۔ پس اگر اہل ربوہ کا استدلال درست ہے کہ چونکہ ربوہ کی زمین ان کی اپنی ملکیت ہے۔ لہٰذا وہ کسی دوسری جماعت کو وہاں نشر واشاعت کی اجازت کیوں دیں؟ تو پھر روس کی زمین میں جو روس کی قومی ملکیت ہے اگر شاطر سیاست کا مبلغ نشر واشاعت نہیں کر سکتا اور حکومت روس اس کی اجازت نہیں دیتی تو اس میں اعتراض کرنے اور آہ وبکا کرنے کی کون سی بات ہے؟ لیکن یہ عجیب منطق ہے کہ ایک طرف تو وہ روس پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہاں مذہبی آزادی نہیں ہے اور دوسری طرف خود اپنے مرکز ربوہ میں مذہبی آزادی کو ناجائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی زمین ہے۔ لہٰذا ہم کسی کواس میں تبلیغ کی اجازت کیوں دیں۔
پس اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور کوئی شخص بھی اس صداقت پر تصنع اور بناوٹ کی حاشیہ آرائی سے یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ خلاف مآب کا عمل قرآن مجید کے اس حکم کے مطابق ہے۔ جس میں جبر کو اسلامی نظریات کے صریحاً خلاف گردانا گیا ہے۔ بلکہ ان کا عمل روس کے عمل سے اور قول قرآن پاک کے فرمان سے مطابقت رکھتا ہے۔ ان کا یہ اقدام بھی ویسا ہی ہے جیسے وہ عمل کے اعتبار سے بادشاہ ہیں اور قول کے اعتبار سے خلیفہ ہیں۔ جس طرح انہوں نے دنیا کو بے وقوف بنانے کے لئے بادشاہت کو خلافت، آمریت کو جمہوریت اور سیاست کو مذہبیت کا لبادہ پہنا دیا ہے۔ بعینہ انہوں نے بھولے بھالے انسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی غرض سے جبر کا نام مذہبی آزادی رکھا ہوا ہے۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ہماری یہ بات حاشیہ آرائی نہیں۔ تصنع اور بناوٹ نہیں۔ عداوت ورنج محن نہیں اورنہ ہی اس کی غرض دنیاکو بے وقوف بنانا ہے۔ بلکہ یہ تجزیہ میرے ان مشاہدات وتجربات پر مبنی ہے جو میں نے قریب تر رہ کر بلکہ گھر کا بھیدی بن کر کیا ہے۔
ہماری تلخ نوائی نہیں متاع جنوں
بہت قریب سے دیکھی ہے زندگی ہم نے