نفرت پیدا ہوئی اس نے کیسے سنادیں اور پھر شہادت دینے والے کو جب شدید نفرت پیدا ہوگئی تھی تو اس نے اﷲ رکھا کی تمام باتیں کیوں سنیں؟ اس بیان سے تو صاف ظاہر ہے کہ اس میں ذرہ بھر صداقت بھی موجود نہیں۔
۴… ۲۹؍اگست ۱۹۵۶ء کے الفضل میں چند اشخاص کا حسب ذیل مشترکہ بیان شائع ہوا ہے: ’’ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتے ہیں کہ ہم نے آج تک اﷲ رکھا کا نام نہیں سناتھا۔ محض ایک احمدی سمجھ کر اس کو دورات رہنے دیا۔‘‘
شاطر اعظم کے ان چند گواہوں کی یہ شہادت اہل خرد کے لئے عبرتناک ہے اور اس میں ایک ایسا جھوٹ ہے کہ جس کی مثال نہیں۔ پہلا جھوٹ یہ کہ وہ دورات ان کے پاس رہا اور اس کے باوجود ان کے کانوں نے اس کا نام نہ سنا اور نہ ہی اس کا نام نہیں سنا تھا۔ اس جملے میں آج تک کے الفاظ قابل غور ہیں۔ ان گواہوں کی یہ شہادت ۲۹؍اگست کے الفضل میں شائع ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے انیس یا بیس اگست کو یہ تحریر لکھی ہوگی۔ لیکن الفضل میں شاطر سیاست نے اﷲ رکھا کا نام ۲۵؍جولائی سے لینا شروع کر دیا تھا اور جماعت کے بچے بچے کی زبان پر اﷲ رکھا کا نام تھا۔ مقام حیرت ہے کہ ان شہادتوں کے کانوں میں ایک ماہ تک اﷲ رکھا کا نام نہیں پڑا۔ کیا کوئی ذی فہم شخص اسے تسلیم کر سکتا ہے؟
پس یہ اور اسی قسم کے دوسرے گواہوں کے بیانات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خلافت مآب نے جن گواہوں کی شہادتوں پر تکیہ کیا ہے وہ شہادتیں بڑی کمزور ہیں اور ان کے ہر لفظ سے تصنع اور کذب بیانی کی بو آتی ہے۔ درحقیقت شاطر سیاست نے ایک غلط بات کا سہارا لیا تھا اور اپنی اس سازش کو حقیقت ثابت کرنے کے لئے اپنے خوشامدیوں سے شہادتیں حاصل کی تھیں۔ پس جو شہادتیں جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی غرض سے حاصل کی گئی تھیں۔ ان کی اہمیت کیا ہوسکتی ہے۔
ان شہادتوں کا اصل مقصد تو مریدوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا تھا اور معترضین کو جماعت سے خارج کرنے کے لئے کسی بہانہ کی ضرورت تھی۔ بہانہ یہ بنایا کہ ان لوگوں نے میرے قتل کا منصوبہ بنایا ہے اور اس بہانے کی تقویت کے لئے شہادتیں شائع کی گئیں۔ تاکہ کسی شخص کو بھی یہ احساس نہ ہونے پائے کہ اس سازش سے انہیں کیا مقصود ہے۔ چنانچہ اندھی عقیدت رکھنے والوں کی توجہ کو دوسری طرف مبذول کرا کے اپنے بیٹے کے لئے راہ ہموار کر لی اور خود اپنے مریدوں کی موٹی عقل پر مسکرائے ؎