میں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’لااکراہ فی الدین (بقرہ:۲۵۶)‘‘ کہ دین میں جبر کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت محمد مصطفیﷺ نے اسلامی نظریات واعتقادات کی تمام تر بنیاد آزادیٔ ضمیر پر ہی رکھی ہے اور نہ صرف زبان سے بلکہ انہوں نے اپنے اسوۂ حسنہ سے یہ ثابت کر دکھایا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے زندہ ہونے کی دلیل یہ نہیں کہ صرف زبان سے ہی اس کا اعلان کیاجاتا ہے۔ بلکہ اس کے زندہ ہونے کا ثبوت قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ دیتا ہے کہ اے مسلمانو! کسی بات کو جبروتشدد کے ذریعہ منوانے کی بجائے محبت، اخوت اور نرمی سے منوانے کے طریق کار پر عمل کرو۔ کیونکہ اب ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ جب دنیا ایک ایسے دور میں داخل ہو جائے گی کہ جس میں عامتہ الناس ڈنڈے کی ضرب سے کوئی بات ماننے کی بجائے محبت وخلوص سے مانیں گے اور پھر خود سرور کائناتﷺ کا زمانہ بھی ایک ایسے دور میں داخل ہورہا تھا کہ جس میں خلوص ومحبت سے دنیا کو صراط مستقم دکھانے کی ضرورت تھی۔ ظلم وتعدی، جورواستبداد اور قتل وغارت سے سعید روحیں گھبرائی ہوئی تھیں۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے جو حال اور مستقبل کے تمام حالات سے واقف ہے۔ عرب کے زمانۂ حال اور دنیا کے زمانہ مستقبل کے تمام حالات کے پیش نظر دین میں اکراہ کو ناجائز قرر دیا اور مسلمانوں کو اخوت، محبت اور خلوص کے طریق کار سے دین محمدﷺ کو پھیلانے اور توحید کو دنیا میں قائم کرنے کی تلقین کی۔ جہاں اﷲتعالیٰ نے مسلانوں کو کفار کے ساتھ محبت کے اظہار اور خلوص کے برتاؤ کا حکم دیا۔ وہاں اسی حکم میں اہل دین حقہ کو بھی اپنی تنظیم کے اندر اسی طریق کار پر عمل پیرا ہونے کا سبق دیا۔ حضرت محمد مصطفیﷺ کے زمانہ میں مسلمانوں میں سے بعض کی سنگین خطاؤں کے باوجود ان کے قتل کے منصوبے نہیں بنائے گئے۔ ان کے والدین کو کہہ کر ملک بدر یا شہر بدر نہیں کروایا۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں سینکڑوں مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ بعض مسلمانوں نے برسر مجلس حضرت عمرؓ پر تنقید کی اور حضرت عمرؓ نے برا نہیں مانا۔ بلکہ ان کے الزامات کا جواب محبت اورخلوص سے دیا۔
لیکن اسلام کے اس واضح اصول کی موجودگی میں شاطر سیاست کے نظریات جدا خیالات الگ اور اعتقادات مختلف ہیں۔ ان کے نزدیک دنیاکو دھوکا دینا ہی اسلام اور اپنے مریدوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہی رضائے الٰہی ہے۔ چنانچہ جہاں وہ ایک سیاسی مطمع نظر رکھتے ہوئے مذہبی رہنمائی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہاں وہ مذہب میں جبر کو جائز سمجھتے ہوئے بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مذہب میں جبر روا نہیں ہے۔ بعینہ اسی طرح کہ جب وہ اپنی جماعت کو کسی کے خلاف اشتعال دینا چاہتے ہوں تو یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ احباب جماعت پر امن رہیں اور