بیان پر کہ مجھے حضور نے معاف فرمادیا ہے اور بھی نفرت ہوگئی۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۸؍اگست ۱۹۵۶ئ)
اس بیان میںگواہ نے دو باتیں بیان کی ہیں۔ پہلی یہ کہ اسے اﷲ رکھا کو دیکھتے ہی نفرت ہوگئی اور دوسری اس کے بیان پر کہ حضور نے مجھے معاف فرمادیا ہے اور بھی نفرت ہوگئی۔ جہاں تک بیان کے پہلے حصے کا تعلق ہے۔ گواہ کہتا ہے کہ مجھے اﷲ رکھا کو دیکھتے ہی نفرت ہوگئی۔ نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو اس فقرے کے رقم کرنے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اوّل یہ کہ یہ فقرہ محض خلافت مآب کو خوش کرنے کی غرض سے لکھا گیا ہے اور دوم یہ کہ چونکہ نفرت کرنے کا تعلق انسان کے جذبہ محسوسات سے ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ اسے ایک نامعلوم شخص کو دیکھتے ہی نفرت ہوگئی۔ بیان کا یہ حصہ قابل غور ہے۔ کیونکہ جب اﷲ رکھا نے یہ کہا تھا کہ مجھے حضور نے (شاطر سیاست) معاف کر دیا ہے تو نفسیاتی طور پر گواہ کے دل میں جذبۂ عقیدت پیدا ہونا چاہئے تھا نہ کہ جذبہ نفرت؟ لیکن اس بات کی دلیل ہے کہ گواہ خوشامدی ہے وار اس لئے شاطر سیاست کو خوش کرنے کی غرض سے یہ سطور لکھی ہیں۔ ورنہ اس کے دل میں نہ ہی نفرت پیدا ہوئی تھی اور نہ ہی اس کا اظہار کیا تھا۔
۲… الفضل مورخہ ۲۶؍اگست ۱۹۵۶ء میں ایک اور گواہ رقمطراز ہے: ’’پھر اس نے (اﷲرکھا نے) بہت سی باتیں کیں کہ کس طرح وہ مسجد میں رہے۔ لیکن میں نے اسے مسجد میں رہنے نہ دیا اور وہ نماز سے پہلے اپنا بسترا اٹھا کر چلا گیا۔ پھر میں نے دوستوں کو ہدایت کر دی کہ مسجد میں اس کو آنے نہ دیا جائے۔‘‘
اس گواہ کے بیان میں بھی تصنع ہے۔ پہلی بات یہ کہ اﷲ رکھا نے مسجد میں رہنا چاہا۔ لیکن اس نے (گواہ نے) اسے مسجدمیں رہنے نہ دیا اور دوسری یہ کہ دوستوں کو بھی یہ ہدایت کر دی کہ وہ بھی اسے مسجد میں نہ آنے دیں۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کسی کو مسجد میں رہنے سے روکنا بداخلاقی ہے اور جو شخص اتنی بڑی بداخلاقی کر سکتا ہے اس سے جھوٹی شہادت یا جھوٹا بیان دینے کی معمولی بداخلاقی کی توقع بھی کی جاسکتی ہے۔ باقی رہا بیان کا دوسرا حصہ تو جب اﷲ رکھا مسجد سے چلا ہی گیا تھا تو دوسرے دوستوں کو یہ تلقین کرنے کی ضرورت کیسے پڑی کہ اسے مسجد میں نہ آنے دیں۔ کیا اس سے یہ بات واضح نہیں ہورہی کہ شہادت دینے والا خوشامد کے موڈ میں ہے۔
۳… الفضل ۲۸؍اگست ۱۹۵۶ء میں ایک شخص کا بیان شائع ہوا ہے۔ جس میں اس نے لکھا ہے کہ ’’جب اﷲ رکھا میرے سامنے ہی آیا تو مجھے اس سے شدید نفرت ہوگئی۔ یہ الفاظ لکھ کر گواہ نے پھر لکھا ہے کہ اﷲ رکھا نے میرے ساتھ فلاں بات بھی کی اور فلاں بھی۔‘‘ یہ عجیب منطق ہے کہ جس شخص کو دیکھتے ہی دل میں نفرت پیدا ہوگئی تھی۔ پھر اس کی تمام باتیں کیسے سن لیں اور جس سے