۱۹۴۸ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کے انتخاب کے وقت انتخابی دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ میں نے ۱۹۴۸ء ہی میں اس جماعت سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور عملاً اس جماعت سے نفرت کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے بعد آج تک نہ چندہ دیا اور نہ ہی اس جماعت کی کسی کارروائی میں حصہ لیا۔ بلکہ علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کیا۔ لیکن آٹھ سال کے بعد جب شاطر سیاست پر فالج کا حملہ ہوا اور پرانی فہرست نکالی گئی تو چونکہ اس میں میرانام بھی تھا۔ لہٰذا بغیر سوچے سمجھے اسے بھی شائع کر دیا اور یہ نہ سوچا کہ اس شخص کا جماعت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
پس اس حقیقت کے ثبوت میں کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں کہ شاطر سیاست نے اپنے خاص مقصد کے حصول کی غرض سے یہ سازش کی اور اس کو دوسروں کے گلے کا ہار بنا کر جماعت کے اندھی عقیدت رکھنے والوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب کسی کو کیا معلوم کہ ربوہ کا یہ سازش مآب رؤیا وکشوف کاعلم لہرا کر ہرلمحہ نت نئی بدعنوانیوں کو جنم دیتا ہے اور بھولے بھالے شریف لوگ اسے پھر بھی تقدس مآب ہی سمجھتے رہتے ہیں۔ اے کاش انہیں کوئی بتا دے کہ ؎
یزداں یزداں ورد زباں
مقصد لیکن راہ زنی
ماتھے پر نقش محراب
دل میں بتوں کی جلوہ گری
الزامات
دور حاضر کے اس عظیم سیاسی شطرنج باز نے جب سے مسند خلافت سنبھالی ہے اس پر اعتراضات والزامات کی بارش اسی نسبت سے ہوتی رہتی ہے جس نسبت سے اس پر رؤیا وکشوف نازل ہوتے رہتے ہیں۔ بہت تھوڑے لوگ ہیں جنہوں نے دل کی باتیں ان کے منہ پر کہہ دیں اور جنہیں منافق کا خطاب دے کر جماعت سے خارج کر دیا گیا۔لیکن اس جماعت میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو شاطر سیاست پر اعتراضات اپنی نجی مجالس میں کرتے ہیں۔ لیکن اعتراضات کرنے والوں میں سے جن کا علم ہوگیا وہ تو منافق قرار پائے۔ باقی لوگ معترض تو ہیں لیکن ابھی میاں صاحب کی چشم عتاب سے محفوظ ہیں جو لوگ منافق قرار دئیے گئے ان کے اعتراضات اور جو ابھی منافق قرار نہیں پائے ان کے اعتراضات والزامات چونکہ مختلف نہیں بلکہ نوعیت کے اعتبار سے قدر مشترکہ ہیں۔ اس لئے انہیں درج کیا جاتا ہے۔
۱… میاں محمود حلف اٹھائیں کہ انہوں نے کم از کم خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد ہی زنا جیسے قبیح فعل کا ارتکاب نہیں کیا؟