کے بعد اپنی منافقت کا بگل بجایا تو اسی فہرست کے مطابق میرا نام بھی اخبار میں شائع کر دیا۔حالانکہ میں نے اور میرے متذکرہ بالا بھائیوں نے اﷲ رکھاکی صورت بھی نہ دیکھی تھی۔ بلکہ کبھی اس کا نام بھی نہ سنا تھا۔ لیکن ہمارے نام محض اس لئے شائع کئے گئے کہ ۱۹۴۸ء کی فہرست میں ہمارے نام تھے اور ہمیں میاں صاحب اور ان کا صاحبزادہ جانشینی کے مسئلہ میں راستے کا خار تصور کرتے تھے۔ ’’میں اس خداکی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ جس نے ساری دنیا کو پیدا کیا اور جو مالک یوم الدین ہے اور جسے چاہے موت اور جس کو چاہے زندگی بخشتا ہے اور جس کی رضا کے خلاف ایک پتہ بھی اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر سکتا اور جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں اور جہنمیوں کا کام ہے کہ میں نے اﷲ رکھا مذکور کو نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی کبھی اس کا نام سنا تھا اور نہ ہی اس کے کہیں بھیجنے میں میرا ہاتھ تھا اور نہ ہی کسی سازش کا مجھے وہم وگمان بھی تھا اور مجھ پر یہ افتراء ایسی کذب بیانی ہے جس کی مثال نہیں ملتی اور یہ کذب بیانی حضور ہی کا حصہ ہے۔‘‘
یہی حال میرے دوسرے بھائیوں اور ساتھیوں کا ہے۔ اب اس متذکرہ بالا حلف کے بعد بھی اگر شاطر سیاست یا ان کا کوئی وظیفہ خواریہی دعویٰ کرے کہ ہم میں سے کسی کا اﷲ رکھا یا اس فتنہ سے کسی قسم کا کوئی تعلق تھا تو ہم سب اس سلسلہ میں ان کے ساتھ مباہلہ کرنے کو تیار ہیں۔ اگر وہ اپنے اخلاق پر مباہلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنی خلافت کی صداقت پر مباہلہ کرنے سے گریزاں ہیں تو چلئے مباہلہ اسی بات پر ہو جائے کہ جو الزامات انہوں نے موجودہ سازش میں (جو ان کی اپنی پیدا کردہ ہے) ہم پر عائد کئے ہیں۔ وہ درست ہیں تو پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ ان کے دعاوی اور شاطرانہ چالیں کیا ہیں۔
اگر وہ اس بات پر بھی مباہلہ کرنے سے گریزکریں تو پھر میں ان پر یہ الزام عائد کرتا ہوں کہ موجودہ ’’فتنہ منافقین‘‘ خود انہی کا پیدا کردہ ہے۔ اب ان کا فرض ہے کہ وہ اس الزام کے جواب میں اصولی طور پر مجھے دعوت مباہلہ دیں۔ لیکن اگر وہ حسب معمول چپ سادھ لیں تو میں ہی انہیں اس موضوع پر بھی مباہلہ کی دعوت دیتا ہوں۔ لیکن جھوٹے کے پاؤں نہیں ہوتے۔ انہوں نے یہ فتنہ خود کھڑا کیا اور محض اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانے کی غرض سے یہ سازش کی ہے۔ ورنہ حکیم مولوی نورالدین (خلیفہ اوّل) کی اولاد کو خارج کرنا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ انہوں نے ہر اس شخص کو جماعت سے نکالنے کی کوشش کی جو ان کے نزدیک صاحبزدہ مرزا ناصر احمد کی خلافت کی راہ میں دیوار تھا۔ یا جس کے متعلق انہیں شبہ تھا کہ وہ جانشینی کے مسئلہ پر ان کے صاحبزادے کی مخالفت کرے گا۔ چنانچہ انہی لوگوں کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیا گیا۔ جنہوں نے