۴… ان کو علم تھا کہ میرے صاحبزادے میں ایسی کوئی اہلیت نہیں جس کے ذریعہ وہ مجلس میں اور اسی طرح جماعت میں مقبول خاص رہے۔ لہٰذا ان کے نزدیک یہ انتخاب نتائج کے اعتبار سے دور رس تھا۔ چنانچہ ضروری تھا کہ اس بنیاد کو ہی ختم کر دیا جاتا جو ان کے صاحبزادے کے لئے خطرناک تھی۔ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ چنانچہ یہی ہوا کہ انتخاب کا سلسلہ ہی ختم کر دیا۔ اس کے بعد جب صاحبزادہ ناصر احمد کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہوگئی اور وہ مجلس خدام الاحمدیہ کا رکن نہیں رہ سکتا تھا تو میاں صاحب نے شفقت پدری اور ذاتی مصلحت کے پیش نظر اپنے بیٹے کو مجلس انصار اﷲ کا صدر بنادیا اور مولوی عبدالمنان عمر کو بھی جو ابھی مرزاناصر احمد سے عمر میں چھوٹے ہی تھے زبردستی مجلس انصار اﷲ میں شامل کر دیا تاکہ انہیں مجلس خدام الاحمدیہ کا نائب صدر نہ بنانا پڑے۔ کسی نے میاں محمود احمد سے عرض کیا۔ ’’حضور‘‘ مولوی عبدالمنان عمر ابھی چالیس سال کے نہیں ہوئے۔ لہٰذا مجلس انصار اﷲ میں وہ کیسے ہوگئے؟ تومیاں صاحب نے بڑے غصے میں آکر جواب دیا۔ ’’منان کی عمر کتنی ہے یہ میں بہتر سمجھتا ہوں یا تم۔‘‘ میاں صاحب کا یہ مدلل جواب سن کر استفسار کرنے والا نوجوان خاموش ہوگیا اور شاطر سیاست نے اپنے دوسرے بیٹے کو مجلس خدام الاحمدیہ کا نائب صدر نامزد کر دیا۔
کئی سال بیت گئے اور آخر نوسال کے بعدشاطر سیاست پر فالج کا حملہ ہوا اور انہیں اپنی شمع حیات گل ہوتی دکھائی دی۔ موت کا فرشتہ مسکراتا ہوا ان کی آنکھوں کے سامنے آیا تو بہت گھبرائے۔ گھبراہٹ کے عالم میں انہیں اپنے اہل وعیال کا خیال آگیا۔ اتنا بڑا خاندان، سات بیویوں کی اولاد، چار بیویاں زندہ۔ آخر کا کیا بنے گا۔ اگر خلافت کسی دوسرے کے ہاتھ میں چلی گئی تو یہ بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ سکول ہیں، کالج ہے، ہسپتال ہیں، لائبریریاں ہیں، انجمن ہے۔ آخر یہ سب کچھ اپنے ہاتھوں سے بنایا اور کوئی غیر اس کے اثمار کھائے گا۔ اگرچہ یہ تمام چیزیں صدر انجمن احمدیہ ہی کی ہیں۔ لیکن انجمن والے کون ہیں۔ اجارہ داری تو اپنی ہی ہے۔ ہر چیز ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ ہم جیسے چاہتے ہیں اسے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ چیزیں آنکھیں بند کرتے ہی اگر کسی غیر کے ہاتھوں میں چلی گئیں تو بہت برا ہواگا۔ لہٰذا میرا جانشین میرے بیٹے ہی کو ہونا چاہئے اور پھر میں نے ساری زندگی جماعت میں اس کا ایک مقام پیدا کرنے کی سعی وجہد کی ہے۔ وہ تقریر نہیں کر سکتا۔ جماعت میں سینکڑوں اشخاص اس سے بہتر تھے۔ لیکن میں نے ہمیشہ اسے جلسہ سالانہ پر تقریر کے لئے وقت دیا۔ جماعت کے اچھے اچھے عہدوں پر اس کو فائز کیا اور صدر انجمن کا پہلے کوئی صدر نہ تھا۔ صرف اس کو اس کا صدر بنانے کے لئے میں نے صدارت کا عہدہ بھی