دوسری طرف میاں صاحب کا بزدلانہ نمونہ ہے جسے دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ میاں صاحب عمر ثانی ہونے کا جو دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ بے بنیاد اور بے سروپا ہے۔
اب آئیے یہ دیکھیں کہ خلیفہ صاحب کا ’’فتنہ منافقین‘‘ معرض وجود میں کس طرح آیا اور اس کا محرک کون ہے؟ ۱۹۴۸ء میں جب دستور ’’مجلس خدام الاحمدیہ‘‘ کی صدارت کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ انتخاب کا طریق کار حسب ذیل تھا۔
ہر شہر وقصبہ کی جماعت سے مجلس خدام الاحمدیہ (جو مرزائی نوجوانوں کی تنظیم ہے) کا ایک نمائندہ منتخب کرکے اسے مجلس کی طرف سے یہ ہدایت کر دی جاتی کہ وہ فلاں شخص کو ووٹ دے۔ مجلس کا جنرل سیکرٹری ایک خط مرکز (ربوہ) میں لکھ دیتا کہ انتخاب کے لئے ہماری طرف سے فلاں شخص نمائندہ منتخب ہوا ہے اور مجلس نے اسے فلاں امیدوار کو ووٹ دینے کی ہدایت کی ہے۔ چنانچہ تمام مجالس خدام الاحمدیہ نے اپنے اپنے نمائندے منتخب کئے اور انہیں ہدایت دے کر مرکز (ربوہ) میں ایک ایک خط بھیج دیا۔ جس میں لکھا کہ ہمارا فلاں شخص نمائندہ ہے اور وہ فلاں شخص کوووٹ دے گا۔ مجالس کی یہ رپورٹ جو بذریعہ خطوط ربوہ پہنچی۔ وہ انتخاب سے قبل الفضل میں شائع کر دی گئی جو رپورٹ الفضل میں شائع ہوئی اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ بذریعہ خطوط اتنی مجالس نے اپنے نمائندوں کو صاحبزادہ مرزاناصر احمد کے حق میں ووٹ دینے کی ہدایت کی ہے اور اتنی مجالس نے مولوی عبدالمنان عمر کے حق میں۔ اس رپورٹ کے مطابق صاحبزادہ مرزاناصر احمد کی اکثریت تھی۔ اس اشاعت کے چند ہی روز بعد نمائندے مقررہ جگہ پر پہنچے۔ دسمبر کا مہینہ تھا اور رات کی تاریکیوں میں چناب کے کنارے سردی سے ٹھٹھرے ہوئے نمائندے مقررہ جگہ پر جمع ہوئے۔ صاحب صدر نے کرسی صدارت سنبھالی اور کارروائی کے آغاز کا اعلان کر دیا گیا۔
ابھی کارروائی شروع ہی ہوئی تھی کہ گجرات کے نمائندے نے صاحب صدر سے اجازت مانگی۔ انہوں نے اجازت دی تو اس نمائندے نے کہا کہ کیا ہم سب نمائندوں کو اپنی مجالس کی ہدایات کو بدل کر ووٹ دینے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ اس پر صاحب صدر نے جواب دینا چاہا، لیکن صاحبزادہ مرزاناصر احمد فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ نمائندوں کو اپنی مجالس کی ہدایات کے بدلنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس پر گجرات کا وہی نوجوان تھا اور اس نے کہا کہ اگر نمائندوں کو اپنی مجالس کی ہدایات کے بدلنے کا حق حاصل نہیں ہے تو پھر یہ انتخاب محض ایک ڈھونگ ہے۔ کیونکہ مجالس کی ہدایات کے مطابق انتخاب کا نتیجہ تو الفضل میں شائع ہوچکا ہے اور اس میں بتایا جاچکا ہے کہ مجالس کی اکثریت صاحبزادہ مرزاناصر احمد کے حق میں ہے۔ اس کے بعد