کی منازل طے کر رہے ہیں۔‘‘
نہ جانے سادہ لوح مصری صاحب نے وظیفہ خوار کا یہ چیلنج کیوں قبول نہ کیا۔ شاید اس کی وجہ مصری صاحب کی سادہ لوحی تھی۔ ورنہ شاطر سیاست کی بدعنوانیوں اور دھاندلیوں اور خلوت کی شعبدہ بازیوں کو دیکھ کر جو لوگ اسی وقت دہریہ ہوچکے تھے ان میں سرفہرست تو خود شاطر سیاست ہی کا نام لکھا جاسکتا تھا اور اس کے بعد وظیفہ خواروں اور پھر بعض دھواں دھار تقریریں کرنے والوں کے اسمائے گرامی لکھے جاسکتے تھے اور دہریت کی طرف مائل ہونے والوں میں ان لوگوںکے نام رقم کئے جاسکتے تھے جن کو ۱۹۵۶ء میں فتنہ منافقین کے سلسلہ میں خارج از جماعت کیا گیا جو خلافت مآب کے قریب رہ کر دہریت کی طرف مائل تھے۔ لیکن علیحدہ ہوکر پھر خدا کی ہستی کے قائل ہوگئے اور ان پر یہ بات کھل گئی کہ شاطر سیاست کے بداعمال ہونے سے خدا کے انکار کا کیا تعلق ہے؟ پس مصری صاحب کی یہ بات درست تھی اور پھر ان ایک ہزار منافقوں کی فہرست بھی لکھی جاسکتی تھی جواب شاطر سیاست نے تیار کی ہے اور جسے مشتہر کرنے کی جسارت اس لئے نہیں کی گئی کہ کہیں اتنی بڑی تعداد میں منافقین ایک جگہ جمع ہوکر خلافت مآب کی شاطرانہ صلاحیتوں کا قلع قمع نہ کر دیں۔
اگر کوئی شخص دنیا کو دھوکا دینے کے لئے صرف زبان سے کہتا ہے کہ میں خدا کا قائل ہوں اور اس کا عمل اس کے بالکل منافی ہو تو ایسے شخص کو دہریہ ہی سمجھا جائے گا اور پھر وہ لوگ جن کی بنیاد ہی دھوکہ دہی اور مکروفریب پر ہو اور جو سیاسی مطمع نظر رکھتے ہوئے بھی مذہبی ہونے کے دعویدار ہوں ان سے اس دجل کی بھی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ دنیا کو بیوقوف بنانے کی غرض سے خدا پر یقین نہ رکھتے ہوئے بھی زبان سے خدا خدا کے الفاظ پکارتے چلے جائیں۔ ورنہ کیا شاطر سیاست کو دہریہ ثابت کرنے کی غرض سے ان کے اپنے یہ الفاظ ناکافی ہیں جو انہوں نے زنا کے ایک الزام میں مباہلہ کی دعوت کے جواب میں کہے:
’’دنیا میں ہر قسم کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ بعض غلطیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن سے خداتعالیٰ کے ابنیاء تو پاک ہوتے ہیں لیکن خلفاء پاک نہیں ہوتے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۴؍نومبر ۱۹۲۷ئ)
اور پھر اسی اخبار میں لکھا ہے کہ: ’’خدا کا رسول غلطی کر سکتا ہے۔‘‘
اور پھر جو شخص صاف الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ آنحضرتﷺ بھی معصوم نہیں تھے۔ (نعوذ باﷲ) اس شخص کے متعلق یہ کہنا کہ وہ خدا پر یقین رکھتا ہے اور یہ کہ اﷲتعالیٰ اس سے باتیں کرتا ہے۔ دروغ گوئی کی انتہاء نہیں تو اور کیا ہے۔