بھی ایسی نہیں کرتے۔ ممکن ہے جسے لوگ شراب کہتے ہیں۔ انہوں نے پی ہو کیونکہ ان کے ہوش وحواس بھی درست نہیں تھے۔ مجھ کودھمکایا کہ اگر کسی سے ذکر کیا تو تمہاری بدنامی ہوگی مجھ پر کوئی شک بھی نہ کرے گا۔‘‘ (مباہلہ جون ۱۹۲۹ئ)
اس خط کا شائع ہونا تھا کہ قصر خلافت قادیان میں ایک زلزلہ آگیا جب حقائق وبراہین اور صداقت کی تندوتیز ہوائیں چلتی ہیں تو جھوٹ خزاں رسیدہ درختوں کے سوکھے ہوئے پتوں کی طرح چشم زدن میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاگرتا ہے۔ بحر ذخار کے مچلتے ہوئے طوفان کی زد میں آیا ہوا انسان اپنے آپ کو پانی کے سہارے چھوڑ دیتا ہے اور تنکوں کا سہارا تلاش کرتا ہے۔ عدل وانصاف کے کٹہرے میں جھوٹا اور کذاب شخص ریت کی چٹانوں پر اپنے آپ کو محفوظ نہ دیکھ کر جھوٹی قسموں اور جھوٹے دعاوی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بعینہ ربوہ کے اس آمریت مآب نے جب یہ دیکھا کہ پانی سر سے گزر گیا ہے تو اس نے حکومت کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا اور اپنے انگریز دیوتاؤں سے رحم کی بھیک مانگی۔ کئی وفود ارباب بست وکشاد کے پاس بھیجے اور انہیں نازک صورتحال سے آگاہ کیا۔ انگریز نے اپنے اس دیرینہ خدمت گار اور مخلص مدح سرا کی ناؤ ڈوبتی ہوئی دیکھی تو اس کا جی بھر آیا اور اس نے معترضین کے اخبار پر دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی۔ آخر کار اس اخبار کو بند کر دیا۔ معترضین کی زبان بندی کے لئے متعدد تدابیر اختیار کی گئیں۔ انہیں قید وبند کی صعوبتیں پہنچانے کی دھمکی دی گئی اور وہ مظلوم اور بے بس لوگ دانتوں میں زبانیں داب کر خاموش ہورہے۔ اس طرح ’’حق وصداقت‘‘ کا یہ سب سے بڑا علمبردار اپنی لغزشوں پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوگیا اور مباہلہ کا وہ چیلنج جسے معترضین باربار دہرا رہے تھے اور جو بلائے ناگہانی کی طرح سر پر منڈلا رہا تھا ٹل گیا اور چودھویں صدی کا یہ رنگیلا قصر خلافت سوسائٹی کے رنگا رنگ پروگراموں میں پھر کھو گیا۔ رسوائی اسی خاتون کی ہوئی جس نے اپنی حالت زار بیان کی اور کسی نے بھی قصر خلافت سوسائٹی کے ڈرامہ کے اس ولن سے باز پرس نہ کی اور نہ ہی اس کے اخلاق کو شک کی نظروں سے دیکھا اور اس نے اپنی وہ بات سچ کر دکھائی جو اس نے اس خاتون کو کہی تھی کہ: ’’تمہاری بدنامی ہوگی۔ مجھ پر کوئی شک بھی نہ کرے گا۔‘‘ اور دوسری طرف وہ مظلوم خاتون اور اس کا سارا خاندان اپنی مظلومیت پر آنسو بہاتا خاموش ہوگیا۔ لیکن ان کے دل آج بھی دھیمی سروں میں ظلم وتعدی کے خلاف آواز بلندکرنے میں مصروف ہیں۔
یہاں خلوص کے پردے میں سانپ پلتے ہیں
عجیب رنگ زمانہ ہے کیا کیا جائے