مصری صاحب کا یہ سوال کرنا ہی تھا کہ شاطر سیاست نے مصری صاحب کی نیت بھانپ لی۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ اب یہ شخص ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور مریدوں کے ایمانوں کے متزلزل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذا پیشتر اس سے کہ وہ کوئی الزام مجھ پر جماعت کے سامنے عائد کرے۔خیر اسی میں ہے کہ الزام عائد ہونے سے پہلے ہی اسے جماعت میں بدنام کر دیا جائے۔ چنانچہ شاطر سیاست نے اپنے سرکاری اخبار میں ایک مضمون شائع کیا۔ جس میں لکھا مصری صاحب مجھے اپنی لڑکی کا رشتہ دیتے تھے۔ چونکہ میں نے رشتہ نہیں لیا۔ لہٰذا اب مصری صاحب جماعت میں میرے خلاف زہراگل رہے ہیں۔ احباب جماعت ہوشیار رہیں۔ حالانکہ ابھی مصری صاحب نے جماعت کے کسی شخض سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔
چنانچہ الفضل مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۳۷ء میں لکھا ہے کہ: ’’چونکہ ان کی (مصری صاحب) لڑکی کا رشتہ خاندان نبوت میں نہ ہو سکا۔ لہٰذا وہ علیحدہ ہوگئے ہیں۔‘‘
اس قسم کے متعدد مضامین شائع کئے گئے اور اپنا ایک خاص آدمی بھیج کر تمام جماعتوں میں یہ زہر پھیلا دیا کہ مصری صاحب اپنی لڑکی کا رشتہ خاندان نبوت میں کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ ہونہیں سکا۔ اس لئے اب مصری صاحب جماعت سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اتنی معمولی سی بات پر کوئی صحیح العقل شخص اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرتا اور ایمان کی ٹھوکر کا باعث اتنی سی بات کبھی نہیں ہوئی۔ چنانچہ شاطر سیاست نے الفضل میں اس قسم کے مضامین شائع کرنے کے علاوہ تمام اضلاعی جماعتوں سے مصری صاحب کے خلاف قراردادیں منگوانی شروع کر دیں اور ان قراردادوں میں حقارت ونفرت کا اظہار کروایا گیا۔ ایک طرف تو الفضل کے صفحات پر قراردادوں کی نفرت انگیزی بکھیر دی اور دوسری طرف اپنے وظیفہ خواروں سے مصری صاحب کے خلاف اور اپنی خلافت کے حق میں مضامین لکھوانے شروع کر دئیے۔ وظیفہ خواروں نے حق نمک ادا کرتے ہوئے اپنے فن شعبدہ بازی کا پورا ثبوت دیا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے وہ جوہر دکھائے کہ خود حیرت بھی محو حیرت ہو جاتی ہے۔ حقیقت کو چھپا کر جھوٹ کو حقیقت ثابت کرنا بھی ایک ایسا فن ہے کہ جو صرف شاطر سیاست کے وظیفہ خواروں ہی کا حصہ ہے۔ چنانچہ اصل واقعات کو خلط ملط کرنے کا حسب ذیل انداز ملاحظہ فرمائیے۔ ایک وظیفہ خوار رقمطراز ہے: ’’احباب جماعت کو معلوم ہے کہ سیدنا حضرت امیرالمؤمنین ایداﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عبدالرحمن صاحب مصری کے ناپاک خیالات اور دھمکی آمیز اور گندے خطوط کی بناء پر انہیں جماعت سے خارج فرمادیا ہے۔‘‘
(الفضل ۳؍جولائی ۱۹۳۷ئ)