اور پھر ایک دوسرے موقعہ پر فرماتے ہیں: ’’دنیا میں ہر قسم کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ بعض غلطیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن سے خداتعالیٰ کے انبیاء تو پاک ہوتے ہیں۔ لیکن خلفاء پاک نہیں ہوتے۔ دیکھنے والی جو چیز ہے وہ صلاحیت اور قابلیت ہوتی ہے۔‘‘
(قول خلیفہ الفضل مورخہ ۴؍نومبر ۱۹۲۷ئ)
یعنی معترضین جو اعتراضات مجھ پر کر رہے ہیں یہ بے معنی ہیں۔ کیونکہ زنا کے الزام کی اس لئے کوئی اہمیت نہیں کہ یہ غلطی صرف مجھ ہی سے سرزد نہیں ہوئی۔ بعض غلطیاں انبیاء سے بھی ہوجاتی رہی ہیں اور بعض غلطیاں انبیاء نہیں کرتے بلکہ خلفاء سے سرزد ہوجاتی ہیں۔ اس لئے زنا یا اس قسم کی دوسری غلطیاں اگر مجھ میں موجود بھی ہیں تو یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے۔ بلکہ اصل چیز جو خلافت کے لئے ضروری ہے وہ تو صرف صلاحیت اور قابلیت ہے اور وہ دیکھ لو مجھ میں موجود ہے۔ لہٰذا میں خلیفہ برحق ہوں۔
شاطر سیاست کی اس حیرت انگیز تشریح اور عجیب وغریب منطق نے معترضین کو غور وفکر کے ایک اتھاہ سمندر میں غوطہ زن کر دیا۔ جو لوگ تقدس کے پردے میں عبرتناک حرکات کا ارتکاب دیکھ کر پہلے ہی سخت پریشان تھے اور جن کی دنیا میں پاکیزگی کے دعویداروں کے اعمال دیکھ کر ایک زلزلہ بپا تھا اور وہ بڑے حیران ہوکر اور یہ سمجھ کر کہ زنا حرام ہے اﷲتعالیٰ اس کی سزا دیتا ہے۔ بڑے جوش وخروش سے دعوت مباہلہ دے رہے تھے۔ ان لوگوں کے کانوں تک شاطر سیاست کے مندرجہ بالا الفاظ پڑے اور انہیں معلوم ہوا کہ زنا حرام ہی نہیں اور نیز یہ کہ خلافت کے لئے پاک ہونا لازمی نہیں بلکہ صرف صلاحیت وقابلیت کا ہونا ضروری ہے تو ان کی امیدوں کے ایوان دھڑام سے گر پڑے۔ ان کا دعوت مباہلہ فضا میں معلق ہو گیا۔ وہ زنا کے حرام اور حلال ہونے کے مسئلہ پر غور کرتے رہ گئے اور دور حاضر کا یہ عظیم سیاسی شاطر اپنے لکیر کے فقیر مریدوں کی توجہ کو یہ کہہ کر دوسری طرف لے گیا کہ ایسی غلطیاں تو (نعوذ باﷲ) نبی بھی کرتے رہے ہیں۔ اگر میں بھی کوئی ایسی غلطی کرلوں تو کوئی بات نہیں۔ تم صرف میری صلاحیت وقابلیت دیکھو گناہ نہیں ہے جو چھپ کر کہیں کیا جائے۔ لکیر کے فقیر مریدوں نے نعرۂ تکبیر، اﷲ اکبر! حضرت امیر المومنین زندہ باد کے نعرے بلند کئے اور بات آئی گئی ہوگئی۔معترضین کچھ روز تو سکتہ کی سی حالت میں رہے ۔ اس سانحہ پر غور کرتے رہے کہ زنا بھی جائز ہے اور پھر خلفاء یہ فعل قبیح کرتے رہے ہیں (نعوذ باﷲ) لیکن کئی روز کے بعد آخر انہیں سمجھ آہی گئی اور انہوں نے سوچا کہ زنا جائز نہیں بلکہ اس عظیم شاطر سیاست نے انہیں یہ کہہ کرکہ یہ فعل قبیح جائز ہے۔ دعوت مباہلہ سے بچنے کا ایک راستہ تلاش کیا ہے۔ چنانچہ