کچھ خبریں معلوم کر کے لوگوں کو کہہ دیتا ہے کہ الہام ہوا۔ سو مولوی اسماعیل نے کوئی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تھا۔ بلکہ اس عاجز کی دیانت اور صدق پر ایک تہمت لگائی ہے۔ جس کی اپنے ایک دوست کی رویت پر بنا رکھی تھی۔ لیکن بناء اگر صرف اجتہاد پر ہو اور اجتہادی طور پر اگر کوئی کسی شخص کو کافر کہے یا ملحد نام رکھے تو یہ کوئی تہمت نہیں بلکہ جہاں تک اس کی سمجھ اور علم تھا اس نے فتویٰ دیا ہے۔ غرض مباہلہ صرف ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو اپنے قول کی قطع اور یقین پر بناء رکھ کر دوسرے کو مفتری اور زانی قرار دیتے ہیں۔‘‘ (الحکم نمبر۱۱ ج۶ ص۷،۸ مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۲ئ)
جب معترضین نے مرزاغلام احمد قادیانی کا مباہلہ سے متعلق یہ واضح فتویٰ شائع کیا اور اس پر ہی پے در پے دعوت مباہلہ کے اعلانات شائع کئے تو تنگ آکر چودھویں صدی کے اس عظیم شاطر اور رؤیا وکشوف کے بہت بڑے علمبردار کو حسب ذیل الفاظ میں مباہلہ سے گریز کی راہ ڈھونڈنا پڑی: ’’میں اس امر پر مباہلہ کرنے کو تیار ہوں کہ میں خلیفہ برحق ہوں اور جس شخص کو میری خلافت پر شک ہو وہ مجھ سے مباہلہ کرے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۳؍دسمبر ۱۹۲۷ئ)
معترضین نے خلافت مآب کو اس بات پر مباہلہ کی دعوت دی تھی کہ آپ زنا جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کرتے ہیں۔ گر نہیں کرتے تو آئیے مباہلہ سے حق وباطل کافیصلہ کر لیں۔ ہر دو فریق میں سے جو بھی جھوٹا ہوگا وہ فنا ہو جائے گا اور دنیا پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی۔ خلافت مآب نے مباہلہ کی اس دعوت پر کہ ان کی زندگی بے عیب ہے۔ مباہلہ کرنے کی بجائے جواب یہ دیا۔ اگر کسی کو میرے اخلاق پر شبہ ہے تو ہوا کرے میں مباہلہ کے لئے تیار نہیں۔ ہاں! جس شخص کو میری خلافت پر شبہ ہو وہ میرے ساتھ مباہلہ کرے۔ حالانکہ معترضین نے ان پر زنا کا الزام لگایا تھا اور مباہلہ کی دعوت بھی اسی الزام پر دی تھی۔ لیکن شاطر سیاست نے اس دعوت کو قبول کرنے کی بجائے ایک دوسری دعوت دے کر جہاں مباہلہ کے جواز کا اقرار کر لیا وہاں یہ بھی ثابت کر دیا کہ معترضین کے الزامات صحیح تھے۔ چنانچہ جب انہوں نے معترضین کی دعوت مباہلہ کو قبول کرنے کی بجائے اپنی خلافت سے متعلق مباہلہ کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تو معترضین نے اسے بھی قبول کر لیا۔ اب شاطر سیاست بہت گھبرانے اور اپنے مریدوں کو بیوقوف بنانے اور ان کی توجہ کو دوسری طرف مبذول کرانے کی غرض سے رؤیا وکشوف بیان کرنے شروع کر دئیے۔ چنانچہ (الفضل مورخہ ۲۹؍مئی ۱۹۲۸ئ) میں رقم ہے: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص خلافت پر اعتراض کر رہا ہے۔ میں اسے کہتا ہوں اگر تم سچے اعتراض تلاش کر کے بھی میری ذات پر کرو گے تو خدا کی تم پر لعنت ہوگی اور تم تباہ ہو جاؤ گے۔‘‘