۲… مکرمی عبدالکریم اور ان کے رفقائے کار سے قبل بھی بیشتر لوگوں نے شاطر سیاست کے کردار پر اعتراض کیا تھا۔
۳… شاطر سیاست معترضین کے اعتراضات کو اپنی طاقت سے دبا دیا کرتے تھے۔
۴… اس وقت بھی منافقت کے فتوے دئیے گئے تھے۔ سوشل بائیکاٹ ودیگر ہتھیاروں کے علاوہ بعض لوگ زدوکوب بھی کئے گئے تھے۔
۵… معترضین نے میاں صاحب کو چیلنج دیا تھا کہ اگر وہ پاک ہیں تو مباہلہ کرلیں۔
چنانچہ معترضین نے اخبار مباہلہ میں اپنی طرف سے مباہلہ کی دعوت کو باربار شائع کیا اور کہا کہ ہمارے نزدیک میاں صاحب کا اخلاق پست ہے اور وہ زنا جیسے قبیح فعل کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر معترضین اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں اور شاطر سیاست اپنے آپ کو بے عیب سمجھتے ہیں تو وہ دعوت مباہلہ قبول کریںتاکہ حق وباطل میں فیصلہ ہوسکے۔ معترضین کی طرف سے مباہلہ کے لئے باربار اصرار پر مجبوراً اس عظیم سیاسی شطرنج باز کو جواب دینا پڑا۔ چنانچہ انہوں نے لکھا کہ: ’’مجھے یہ یقین کامل ہے اور ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ ایسے امور کے متعلق مباہلہ کا مطالبہ کرنا یا ایسے مباہلہ کو منظور کرنا ہرگز درست نہیں بلکہ شریعت کی ہتک ہے۔‘‘
(مکتوب خلیفہ قادیان ص۲)
میاں محمود احمد کے دعوت مباہلہ سے صریحاً فرار اختیار کرنے پر معترضین نے اخبار میں اپنے اعلان مباہلہ کو پھر دہرایا اور اس دعوت مباہلہ کے جواز میں مرزاغلام احمد کا حسب ذیل فتویٰ شائع کیا سو واضح رہے کہ مباہلہ صرف دو صورت میں جائز ہے۔
۱… اوّل اس کافر کے ساتھ جو یہ دعویٰ رکھتا ہو کہ مجھے یقینا معلوم ہے کہ اسلام حق پر نہیں اور جو کچھ غیراﷲ کی نسبت خدا کی صفتیں میں مانتا ہوں وہ یقینی امر ہے۔ یہ تمام خبریں تحقیقات طلب ہیں۔
۲… دوم اس ظالم کے ساتھ جو بے جا تہمت کسی پر لگا کر اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً ایک مستورہ عورت کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے۔ کیونکہ میں نے بچشم خود اس کو زنا کرتے دیکھا ہے یا مثلاً ایک شخص کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شراب خور ہے کیونکہ بچشم خود شراب پیتے دیکھا ہے۔ سو اس حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے۔ کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں بلکہ ایک شخص اپنے یقین اور رویت پر بنا رکھ کر ایک مؤمن بھائی کو ذلت پہنچانا چاہتا ہے۔ جیسے مولوی اسماعیل صاحب نے کہا تھا کہ یہ میرے ایک دوست کی چشم دید بات ہے کہ مرزاغلام احمد یعنی یہ عاجز پوشیدہ طور پر آلات نجوم اپنے پاس رکھتا ہے اور انہی کے ذریعہ کچھ