ہونے پر شدید احتجاج کیا اور واشگاف الفاظ میں میاں محمود کے اخلاق کو منصب خلافت کے برعکس بتایا اور کہا کہ جس شخص کا اخلاق پست ہو اور جو شخص پاکیزگی سے تہی دست ہو وہ خلافت پر کسی صورت میں بھی بیٹھنے کا حق دار نہیں ہے۔ مولوی محمد علی کے ان الزامات اور اس مخالفت کے جواب میں دور حاضر کے اس بہت بڑے شاطر سیاست نے اپنے چند غنڈہ قسم کے خوشامدیوں کی مدد سے یہ اقدام کیا کہ مولوی محمد علی کے لئے بڑے خطرناک حالات پیدا کر دئیے۔ چنانچہ انہیںمجبوراً قادیان چھوڑ کر لاہور ہجرت کرنا پڑی۔
مولوی محمد علی امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے اختلاف کے دس پندرہ برس بعد چند اور مریدوں نے شاطر سیاست سے علیحدگی اختیار کی اور اس علیحدگی اور اختلاف کی وجہ شاطر سیاست کی اخلاقی پستی بیان کی۔ چنانچہ مکرمی عبدالکریم اور ان کے رفقائے کارنے انہیں مباہلے کی دعوت دی اور قادیان ہی سے ایک اخبار شائع کیا جس کا نام بھی ’’مباہلہ‘‘ رکھا اور اس میں مباہلہ کے چیلنج کو باربار دہرایا اور بتایا کہ دور حاضر کی عظیم سیاسی شخصیت تقدس کے پردے میں نہایت بھیانک اقدام کرتی ہے۔ چنانچہ اخبار مباہلہ یکم؍دسمبر میں لکھا ہے: ’’خلیفہ قادیان کے چال چلن پر الزامات کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ بلکہ جب سے جناب نے مسند خلافت پر قبضہ جمایا ہے اس وقت سے ہی وقتاً فوقتاً ان الزامات کا سلسلہ شروع رہا ہے۔ گویا اعتراض قادیان سے کسی قدر باہر بھی تھے۔ لیکن زیادہ تر زور قادیان دارالامن تک ہی محدود رہا۔ خلیفہ صاحب ان الزامات کو کئی طریق سے دبادیتے رہے۔ لیکن یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ نہ تو ہر وقت یکساں ہوتا ہے اور نہ ہی کسی راز کو چھپانے کے لے حکمت عملی یا ہوشیاری ہی ہمیشہ کام آیا کرتی ہے۔ اس لئے کسی نہ کسی وقت ان سوالات کااٹھنا ایک لازمی امرتھا۔ بلکہ دباؤ سے الزامات کو روکنے کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ کسی وقت بزور اٹھیں چنانچہ یہی ہواکہ اس مرتبہ منافقت کے فتوے اور مختلف قسم کی دھمکیاں زدوکوب اور بائیکاٹ غرضیکہ تمام حربے ناکام ثابت ہوئے۔ بلکہ خلیفہ کا دلائل کو چھوڑ کر اپنی طاقت کو استعمال میں لانا اس امرکا اور بھی واضح ثبوت تھا کہ یہ اعتراض بالکل سچے ہیں۔ کیونکہ ان اعتراضات کا حل نہایت آسان تھا اور ہے کہ اگر خلیفہ کے نزدیک معترضین کاذب تھے تو وہ طریق مباہلہ اختیارکرتے جو حق وباطل میں فیصلہ کر دیتا۔‘‘
اس عبارت سے حسب ذیل امورکا علم ہوتا ہے۔
۱… خلیفہ قادیان سے مکرمی عبدالکریم اور ان کے رفقائے کار کا اختلاف ان کا ذاتی اخلاق وکردار تھا۔ جس کو معترضین پست تصور کرتے تھے۔