وہ کیا۔ اس نے کہا خلیفہ وہ ہے جو نہ کسی سے بے جا وصول کرے اور نہ بے جا کسی کو دے اور الحمدﷲ! آپ ایسے ہی ہیں اور بادشاہ وہ ہے جو ظلم سے وصول کرے جس سے چاہے لے اور جسے چاہے دے دے۔
حضرت سفیان بن ابی العرجاء کی یہ روایت حضرت سلمانؓ کی تائید کرتی ہے اور اس حدیث میں بھی بادشاہت اور خلافت کے مابین وہی حد فاصل قائم کی گئی ہے جو حضرت سلمانؓ کی حدیث میں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بیت المال کے روپیہ کے دیانت دارانہ مصرف کو خلافت کی کسوٹی ٹھہرایا گیا ہے۔ آئیے! دیکھیں کہ امام جماعت ربوہ میاں محمود احمد اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں یا نہیں؟
حضرت عمر فاروقؓ کے ماننے والے ان کی دیانتداری اور ان کے صحیح مصرف کے قائل تھے اور ان کے ماننے والوں میں سے ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جسے حضرت عمرؓ کی دیانت پراعتراض ہو اور وہ اس اعتراض کے باعث ملت اسلامیہ سے منحرف ہوا ہو۔ لیکن اس کے برعکس میاں محمود احمد (جو عمر ثانی ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں) متعدد مریدوں نے ان کی دیانت پر اعتراض کے باعث ان کی جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ حضرت عمرؓ فاروق اور میاں محمود احمد کے اس عظیم امتیاز سے قطع نظر وہ جماعت کے بیت المال سے اسراف کے حامل ہیں۔ چنانچہ وہ خود اپنے سرکاری اخبار الفضل میں اپنے خسرو سالے زین العابدین سید ولی اﷲ شاہ صاحب سے متعلق رقمطراز ہیں: ’’جس کے خاندان کے سفر پر صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید نے تیرہ ہزار روپیہ خرچ کیا ہے۔ اس کو اس لئے دمشق بھیج دیا گیا کہ کہیں خلیفہ نہ بن جائے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۳؍ستمبر ۱۹۵۶ئ)
یعنی انہوں نے انجمن کے روپیہ میں سے مبلغ تیرہ ہزار روپیہ اپنے خسر وسالے کو اس کے ذاتی اخراجات کی غرض سے دیا۔ (جس کا اقرار وہ خود اپنے سرکاری اخبار میں بھی کر چکے ہیں) جو اسراف ہے۔
اسی طرح انہوں نے اپنی سب سے چھوٹی بیوی کے بھائیوں اور اپنے بیٹوں کو انگلستان تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے انجمن کے روپیہ سے بھیجا۔ ظاہر ہے کہ جماعت میں روپیہ کے ایسے اسراف کو کسی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پھر صیغہ امانت فنڈ سے آپ نے خود ’’اوور ڈرافٹ‘‘ کیا ہے اور اپنے اعزاء کو روپیہ دیا ہوا ہے اور قرضہ کی مد کا حساب نہیں اور نہ ہی کسی کو احتساب کرنے کا اختیار ہے۔ حفاظت مرکز کے روپے کا نہ ہی کوئی حساب ہے اور نہ ہی اس کا حساب لینے کا کوئی مطالبہ کر سکتا ہے۔ تحریک جدید کا روپیہ سندھ میں اپنی ذاتی جائیداد بنانے میں