جو نہایت خاموشی کے ساتھ آہستہ آہستہ مسند حکومت پر قابض ہونا چاہتی ہے اور اس کے امام کے دل میں حکومت کرنے کی آرزو انگرائیاں لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ الفضل کے حسب ذیل اقتباسات اس کی تائید کرتے ہیں۔ ’’میراکہا مانو تو ایک صلاح دیتا ہوں۔ ساری دنیا میں ایک ہی خلیفہ ہو اور ساری دنیا کی انجمنیں صدر انجمن کے ماتحت ہوں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۴؍اپریل ۱۹۱۴ئ)
’’اب تو احمدی پانچ چھ لاکھ ہیں۔ اگر سارے مسلمان احمدی ہو جائیں تو وہ چالیس کروڑ ہو جاتے ہیں اور اگر چالیس کروڑ اخرجت للناس بنجائیں تو سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ ہم غریب ہیں۔ ہم امریکہ اور یورپ کو یوں دبوچ لیں جیسے باز چڑیاں کو دبوچ لیتا ہے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۲۸؍نومبر ۱۹۵۶ئ)
’’پس جو بادشاہ بھی احمدی ہوگا وہ اپنے آپ کو خلیفہ وقت کے ماتحت اور اس کا نائب سمجھے گا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۷؍اگست ۱۹۳۷ئ)
مندرجہ بالا اقتباسات اس جماعت کو سیاسی سمجھنے کے لئے کافی ہیں اور نیز یہ کہ اس جماعت کے عزائم مسند حکومت حاصل کرنا ہیں جو شخص ساری دنیا پر حکومت کرنے کا خواہاں ہو اور جو امریکہ اور یورپ کو اس طرح دبوچ لینے کا خواب دیکھ رہا ہو جیسے باز چڑیا کو دبوچ لیتا ہے تو پاکستان کے متعلق اس شخص کے عزائم کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
۱۹۴۷ء کے بعد جب مسلم لیگ برسراقتدار آئی تو خلیفہ ربوہ نے مسلم لیگ کی خوشامد شروع کر دی اور اسی میں اپنی سیاست اور مفاد سمجھا۔ قائد ملت خان لیاقت علی خان جب پہلے وزیراعظم مقرر ہوئے تو شاطر سیاست نے ان کے ساتھ اپنا تمام تر خلوص وابستہ کر دیا۔ ان کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین برسراقتدار آئے تو ان کی خوشامد کی گئی۔ مسٹر محمد علی کے زمانہ میں ان سے وفاداری کے عہد کئے گئے۔ چوہدری محمد علی کی وزارت میں ان کے قصیدے گائے گئے۔ حسین شہید سہروردی وزیراعظم تھے تو ان کی وفاداری کے گیت گائے گئے۔ سابق پنجاب میں جب مسلم لیگ برسر اقتدار تھی تو شاطر سیاست اس کی مدح سرائی کے لئے وقف تھی اور وحدت مغربی پاکستان کے بعد ری پبلکن پارٹی برسر اقتدار آئی تو اس کی مدح سرائی کے لئے وقف ہوگئے۔
یہ تمام حقائق اس بات کا بیّن ثبوت ہیں کہ اس جماعت کا سربراہ سیاسی شخص ہے اور اس کا مذہب اور روحانیت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ وہ خالص سیاسی نظریات کی روشنی میں اپنی جماعت کو منزل مقصود کی طرف لے جارہے ہیں۔ لیکن اس کا نام اس نے مذہبیت رکھا ہوا ہے۔