آئے۔ اپنے سرکاری اخبار میں ایڈیٹر ایسے شخص کو رکھا جو پیدائشی طور پر صحافتی صلاحتیں نہ رکھتا تھا۔ ایڈیٹر کے لئے قابلیت کا معیار یہ رکھا کہ آمر مطلق کی ہدایات واشارات پر اپنے نوک قلم کو رقص فرمائی کی دعوت دینے کے فن میں بے مثل ہو۔
ان کی محفل میں وہی شخص ہے محبوب نظر
دیکھ کر ان کو جو سر اپنا جھکا دیتا ہے
چنانچہ اخبار کو اپنے ذاتی پروپیگنڈا کے لئے وقف کر دیا گیا۔ ناقدین کو سخت سزائیں دینی شروع کردیں اور ان کے خلاف سوشل بائیکاٹ ودیگر اوچھے ہتھیاروں کے استعمال کا سلسلہ شروع کر دیا۔ چنانچہ گورداسپور کے سیشن جج مسٹر جی ڈی کھوسلہ نے مقدمہ بخاری کے سلسلہ میں جو فیصلہ دیا اس میں لکھا: ’’مقابلتاً محفوظ ہونے کے اس حالت نے غرور پیدا کر دیا جس نے قادیانیوں میں تقریباً تمرد کی شکل اختیار کر لی۔ اپنے دلائل کو منوانے اور فرقے کو ترقی دینے کے لئے انہوں نے ان ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا جن کو عام طور پر نہایت ناپسندیدہ کہا جائے گا۔ انہوں نے ان اشخاص کے دلوں میں جنہوں نے ان کی جماعت میں شامل ہونے سے انکار کیا نہ صرف بائیکاٹ، اخراج اور بعض اوقات اس سے بھی بدتر مصائب کی دھمکیوں سے دہشت انگیزی پیدا کی۔ بلکہ اکثر انہوں نے ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا کر اپنے تبلیغی سلسلہ کو مضبوط کیا۔ قادیان میں ایک والنٹیر کور مرتب کی گئی جس کا منشاء غالباً اپنے احکام کو منوانے کے لئے قوت پیدا کرنا تھا۔ انہوں نے عدالتی اختیارات کا استعمال بھی اپنے ذمہ لیا۔ دیوانی مقدمات میں ڈگریاں صادر کی گئیں اور اجراء بھی کرایا گیا۔ فوجداری مقدمات میں سزا کے حکم سنائے گئے اور سزائیں بھی دی گئیں۔ لوگوں کو فی الحقیقت قادیان سے نکال دیا۔ قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ قادیانیوں پر صریح الزام لگایا گیا کہ انہوں نے مکانوں کو تباہ کیا اور جلایا اور قتل تک بھی کئے۔ اس خیال سے کہ کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ مذکورہ بالا واقعات محض احرار کے تخیل کی اختراع ہیں۔ لازمی ہے کہ میں چند واقعی مثالیںبیان کر دوں جو اس مقدمہ کی مثل پر لائی گئی ہیں۔ کم از کم دو اشخاص کو اپنے وطن قادیان سے باہر نکالا گیا۔ کیونکہ ان کے خیالات مرزا کے خیالات سے متفق نہ تھے۔ وہ اشخاص حبیب الرحمن نمبر۲۸ اور اسماعیل ہیں۔ مثل پر ایک ایک چٹھی ڈی زیڈ نمبر۳۳ موجود ہے۔ جس کا کاتب خود موجودہ مرزا اور جس میں حکم دیاگیا ہے… کہ حبیب الرحمن گواہ صفائی نمبر۲۸ کو قادیان میں آنے کی اجازت نہیں۔ اس چٹھی کو مرزابشیرالدین محمود گواہ صفائی نمبر۳۷ نے تسلیم کیا ہے۔ گواہ نمبر۲۰ (خان صاحب فرزندعلی) نے تسلیم کیا ہے کہ اسماعیل کو جماعت سے خارج کیاگیا اور قادیان میں داخل نہ ہونے کا حکم دیا گیا۔