بہت سے دیگر گواہوں نے تشدد اور ظلم کی داستانیں بیان کی ہیں۔ بھگت سنگھ گواہ صفائی نمبر۴۹ بیان کرتا ہے کہ مرزائیوں نے اس پر حملہ کیا۔ ایک شخص غریب شاہ کو قادیانیوں نے مارا اور جب اس نے مقدمہ کرنا چاہا تو کوئی شخص اس کی شہادت دینے کے لئے آگے نہ آیا۔ قادیانی ججوں کے فیصلہ کو وہ مقدمات کی مثلیں پیش کی گئیں اور مثل پر موجود ہیں۔ مرزا (یعنی محمود احمد) نے تسلیم کیا ہے کہ عدالتی اختیارات قادیان میں استعمال کئے جاتے ہیں اور ان معاملات میں وہ خود آخری عدالت اپیل ہے۔ عدالت کی ڈگریوں کے اجراء کئے جاتے ہیں اور ایک مثال بھی موجود ہے۔ جہاں ڈگری کے اجراء میں ایک مکان کو نیلام کیاگیا (مرزاقادیانی) کو جو عرضیاں دی جاتی ہیں ان کے لئے قادیانی ساخت کا اسٹامپ کاغذ اور فیس کورٹ (گھر میں) تیار کرکے فروخت اور استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن پوشیدہ ہے۔ قادیان میں ایک والنٹیر کور کی موجودگی کی شہادت گواہ صفائی نمبر۴۰ (مرزاشریف احمد) نے دی ہے۔ علاوہ ازیں سب سے سنگین معاملہ عبدالکریم کا ہے جس کی داستان حقیقتاً ایک داستان درد ہے۔ اس شخص نے مرزائی مذہب قبول کیا اور قادیان چلا گیا۔ مگر وہاں اس کے دل میں مذہبی شکوک وشبہات پیداہوئے اور اس نے مرزائیت سے توبہ کر لی۔ تب اس پر ستم آرائی کی ابتداء ہوئی۔ اس نے ایک اخبار مباہلہ نامی جاری کیا۔ جس کا مقصد مرزائی جماعت کے معتقدات پر تنقید کرنا تھا۔ مرزا (محمود احمد) نے ایک تقریر میں جو دستاویز ڈی زید نمبر۳۹ (الفضل مورخہ یکم؍اپریل ۱۹۳۰ئ) میں شائع ہوئی ہے۔ اخبار مباہلہ والوں کی موت کی پیشین گوئی کی۔ اس تقریر میں ان لوگوں کی طرف اشارہ بھی کیا جو اپنے مذہب کی خاطر قتل کرنے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔ اس تقریب کے جلد بعد عبدالکریم پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔لیکن وہ بچ گیا۔ ایک شخص محمدحسین نامی، عبدالکریم کی امداد کرتا تھا اور ایک فوجداری مقدمہ میں جو عبدالکریم پر چل رہا تھا۔ اس میں گواہ تھا۔ اس پر حملہ ہوا وہ قتل ہوگیا۔ قاتل پر مقدمہ چلا اور اسے پھانسی کی سزا دی گئی۔پھانسی کے حکم کی تعمیل ہوئی اور پھانسی پانے کے بعد لاش قادیان میں لائی گئی اور بڑی دھوم دھام سے اسے اس جگہ دفن کیاگیا۔ جس کا بہشتی مقبرہ نام رکھتے ہیں۔ الفضل اخبار میں جو مرزائی جماعت کا اخبار ہے قتل کی تعریف اور قاتل کی مدح سرائی کی گئی۔ یہ لکھاگیا ہے کہ مجرم نہیں تھا اور امر واقعہ سے قبل ہی جان دے کر پھانسی کی بدنام کنندہ سزا سے بچ گیا۔ خدا نے اپنے عدل وانصاف میں یہ مناسب سمجھا کہ پھانسی کی ذلت سے پہلے ہی اس کی روح قبض کرے۔ جب عدالت میں مرزا (محمود احمد) کا ایک معاملہ کے متعلق بیان لیا گیا تو اس نے بالکل مختلف کہانی بیان کی اور کہا کہ محمد حسین کے قاتل کو باعزت طریق پر اس لئے دفن کیاگیا تھا کہ اس نے اپنے جرم پر اظہار ندامت کیا تھا اور اس طرح گناہ سے بری ہوچکا تھا۔