مرزاقادیانی (مسیح موعود) مٹ جائیں گے اور مسیح موعود مٹ گئے تو محمد رسول اﷲﷺ مٹ جائیں گے۔ محمد رسول اﷲﷺ مٹ گئے تو خدا مت جائے گا۔ یعنی اگر میں مٹ گیا تو خدا مٹ جائے گا۔ (لاحول ولّا قوۃ الا باﷲ)
اس طرح انہوں نے اندھی عقیدت رکھنے والے سیدھے سادھے انسانوں کے قلوب پر اپنی عظمت کے نشان منقش کرنے شروع کر دئیے اور اندرون جماعت سازشوں کاایک وسیع جال پھیلا دیا۔ دور حاضر کے اس عظیم الشان شاطر سیاست نے نہ صرف اپنی جماعت میں اپنی فطری شاطرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا بلکہ اس نے اپنے جاسوس حکومت کے تمام محکموں میں چھوڑ دئیے۔ نیلی پوش، مجلس احرار ودیگر مخالف جماعتوں میں جاسوسوں کا دام پھیلا کر ان جماعتوں کا ستیاناس کر کے رکھ دیا۔ مسجد شہید گنج اور تحریک آزدی کشمیر کا ایسا عبرتناک حشر کیا کہ آنے والا مورخ اس شاطر بے مثل کی قومی خدمات کو سنہرے حروف سے قلمبند کرے گا۔ زمام خلافت ہاتھ میں لیتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ جماعت میں جاسوسی کا ایک وسیع دام پھیلا دیا اور تنقید وتبصرہ پر سختی سے پابندی عائد کر دی۔ ایسے لوگوں کو اپنے ارد گرد جمع کرنا شروع کیا۔ جن کا علم محدود تھا۔ ان کی ذریت کی حس مردہ ہوچکی تھی اور یا ایسے لوگوں کو اپنی قربت میں رہنے کا موقعہ دیا جو اقتصادی اعتبار سے بہت کمزور تھے اور ہر لمحہ ان کی مدد کے محتاج رہتے تھے۔ اپنے ماحول کو بھی اس نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ قرابت دار اور دوسرا حصہ قریب تر۔ قرابت دار کی فہرست میں صرف ان لوگوں کو شامل کیا جو اس کے قریبی رشتہ دار تھے۔ مثلاً بھائی، بہنوئی اور بیٹے وغیرہ۔ قریب تر میں وہ لوگ شامل کئے گئے جنہیں اس کی قربت میں رہنے کا موقع دیاگیا۔ لیکن اسے بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک تو قریب تر وہ لوگ قرار دئیے گئے جن میں ذہنی اور علمی صلاحیتیں مفقود تھیں اور وہ اس کی آمریت اور ذاتی لغزشوں کی باریکیوں کو سمجھنے سے عاری تھے اور دوسرے قریب تر وہ لوگ قرار دئیے جاتے جن سے غیرت روٹھ چکی ہوتی یا بدعنوانیوں اور بڑی سے بڑی لغزشوں کو گناہ نہ سمجھتے یا سب کچھ آنکھوں سے دیکھ کر روٹی کے چند ٹکڑوں کی خاطر پردہ پوشی کے فن میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ اپنے ذاتی نقائص اور بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مندرجہ بالا تدابیر اختیار کرنے کے علاوہ اپنے اور عوام الناس کے درمیان قصر خلافت کی دیوار حائل کر دی تاکہ عوام الناس اور ان کے درمیان ایک طویل فاصلہ قائم رہے۔ عوام الناس کو چند لمحوں کی ملاقات کی خاطر گھنٹوں کی مسافت طے کرنی پڑے اور ایک طویل انتظار کے بعد چند لمحوں کی ملاقات میں ملاقاتی اس کا تفصیلی جائزہ لینے کی بجائے تشنہ کام لوٹ جائے۔ بلکہ اس کے قلب وذہن پر تقدس کا نقش اور بھی ابھر