۵… یہ کہ ہر حال رنج وراحت اور عسر اور یسر اور نعمت اور بلا میں اﷲتعالیٰ کی وفاداری کرے گا اور بہرحالت راضی بقضاء ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا۔ بلکہ قدم آگے بڑھائے گا۔
۶… یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی وعاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔
۷… یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے عزیز سے عزیز تر سمجھے گا۔
۸… یہ کہ عام خلق اﷲ کی ہمدردی میں محض للّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔
۹… یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہو اوہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے پر قبول کرے گا اور ’’قال اﷲ وقال الرسول‘‘ کو اپنی ہرایک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔
۱۰… اس عاجز سے عقد اخوت محض للّٰہ باقرار اطاعت اور معروف باندھ کر اس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔
مولوی نورالدین
حکیم نورالدین اس جماعت کے خلیفہ اوّل تھے اور بھیرہ کے رہنے والے تھے۔ وہ مرزاغلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ کے پاس بیعت کے لئے اس وقت گئے جب ابھی مرزاقادیانی نے مسیحیت کے منصب پر فائز ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور جب وہ براہین احمدیہ کی تصنیف میں مصروف تھے۔ ابھی مرزاقادیانی نے بیعت لینی شروع نہیں کی تھی کہ حکیم مولوی نورالدین نے انہیں بیعت کے لئے کہا۔ جس کے جواب میں مرزاقادیانی نے کہا کہ ابھی میں بیعت نہیں لے رہا۔ چنانچہ جب مرزاغلام احمد قادیانی نے بیعت لینی شروع کی تو سب سے پہلے حکیم مولوی نورالدین ہی کی بیعت لی گئی۔ وہ متقی اور پابند صوم وصلوٰۃ تھے اور اپنے پیر مرزاغلام احمد کی ہر بات میں اطاعت کرتے تھے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے ان کے متعلق حسب ذیل سطور لکھی ہیں: ’’اور میرے دوست سب متقی ہیں۔ لیکن ان سب سے قوی بصیرت اور کثیر العلم اور زیادہ تر نرم اور حلیم اور