اکمل الایمان اور سخت محبت اور معرفت خشیت اور یقین اور اثبات والا ایک مبارک شخص، بزرگ، متقی، عالم، صالح، فقیہہ اور جلیل القدر محدث اور عظیم الشان حاذق حکیم، حاجی الحرمین، حافظ قرآن، قوم کا قریشی، نسب کا فاروقی ہے۔ جس کا نام نامی معہ لقب گرامی مولوی حکیم نورالدین بھیروی ہے۔ اﷲتعالیٰ اس کو دین ودنیا میں بڑا اجر دے اور صدق ووفا اور اخلاص ومحبت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں سے وہ اوّل نمبر پر ہے۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۶، خزائن ج۷ ص۱۸۰)
مرزاقادیانی (بانی سلسلہ احمدیہ) کی مندرجہ بالا سطور اس لئے رقم کی ہیں تاکہ قارئین کے ذہن میں یہ بات جاگزین ہو جائے کہ مرزاقادیانی نے حکیم مولوی نورالدین کے متعلق تعریفی کلمات میں کیا کچھ کہا تاکہ آئندہ آنے والے مضامین کو پڑھتے وقت تمام امور کے سمجھنے میں آسانی رہے اور یہ بات واضح ہوسکے کہ مولوی نورالدین کے ساتھ کیا بیتی۔
انہوں نے اپنے عہد خلافت میں تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنی ساری زندگی تصنیفات کی تخلیق میں گذاردی۔ حیات بھر شان وشوکت اور جاہ وحشمت سے گریزاں رہے اور جب موت کے فرشتے آئے تو اس وقت اپنی اولاد کے لئے جائیداد نہیں چھوڑی۔ بیت المال سے اسراف نہیں کیا اور نہ ہی ان پر کسی نے ایساکوئی الزام تراشا۔ ان کی زندگی زناء جیسے الزامات سے بھی مبرّا رہی اور آخر کار ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
حکیم مولوی نورالدین کے حالات زندگی رقم کرنے سے دو باتیں مقصود ہیں۔ اوّل یہ کہ خلافت مآب مرزامحمود احمد ہی کی جماعت میں اسی مسند خلافت پر کہ جہاں اب وہ تشریف فرما ہیں۔ حکیم مولوی نورالدین بھی متمکن رہے۔ لیکن ان پر کسی نے بھی خیانت کا یا نجی بے راہ روی کا الزام عائد نہیں کیا۔ لیکن اس کے برعکس کیا وجہ ہے کہ اسی مسند پہ بیٹھ کر جب وہ اپنے مریدوں پر حکومت کرتے ہیں تو ان پر ان ہی کے مرید بے شمار الزامات عائد کرتے چلے جاتے ہیں۔ اگر کسی اور شخص کی مثال دی جائے جو ان کی جماعت کا نہ ہو تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں غیروں کی مثال دینے سے مطلب؟ اس لئے میں نے انہی کی جماعت میں سے اس مسند پر بیٹھنے والے ایک شخص کی مثال دی ہے تاکہ ان کے فرار کی کوئی گنجائش ہی نہ رہے۔
میں نے اس سے پیشتر مرزاغلام احمد کی تعلیمات اور شرائط بیعت بھی اس لئے درج کی ہیں۔ تاکہ ہر شخص دیکھ سکے کہ خلافت مآب اپنے مسیح کی تعلیمات پر کتنا عمل کرتے ہیں اور شرائط بیعت کے بھی پابند ہیں یا نہیں۔ لیکن اگر پیری مریدی کے نظریہ سے ہٹ کر دیکھا جائے تو اس صورت میں بھی مرزاقادیانی ان کے باپ ہیں اور وہ اپنے باپ کی قائم کی ہوئی حدود کو توڑ کر نکل