یونان کی آمریت، آمریت روما سے تھوڑی سی مختلف ہے۔ روما کے آمر وقت کے تقاضوں کے باعث منظر عام پر آئے۔ لیکن یونانی آمر قوت بازو اور جورو استبداد کی تندوتیز ہواؤں کے شانوں پر بیٹھ کر مخالف کے ایوانوں کو مسمار کرتے ہوئے مطلق العنانی کی زمام اپنے ہاتھوں میں لے لیتے اور اوّل سے آخر تک ظلم وستم کا ایک وسیع باب واکئے رکھتے۔ ان آمروں کو آمر کی بجائے جابر کہا جاتا تھا اور ان کے لئے وقت کی قید نہیں تھی۔
وقت کا تیز دھارا بہتا رہا اور دنیا کی فضا کی رنگت میں تبدیلی پیدا ہوتی رہی۔ انسان کا ذہن بدلتا رہا اور رفتہ رفتہ ایک وقت ایسا آگیا جب اذہان میں ایک چمک سی پیدا ہوگئی اور اس دور کے آمروں نے وقت کی روشنی اور اذہان کی بلندی کے پیش نظر آمریت کے اصولوں اور آمرانہ خصوصیات میں بھی قابل ذکر تبدیلی پیدا کر لی اور آمریت جمہوری اقدار کے قریب ہوگئی۔ لیکن اس کے باوجود اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی اور بعض حکمرانوں نے آمریت اور جمہوریت کے باہمی امتزاج سے حکومت کرنا چاہی۔ لیکن ان کی راہ میں ان کے ذاتی عزائم حائل ہوکر رہ گئے اور لوگوں نے انہیں ان کے ذاتی عزائم کی وجہ سے شکست فاش دی اور خالص جمہوریت کی طرف قدم بڑھانے شروع کر دئیے۔ لیکن آج جمہوریت کے اس دور میں بھی بعض شخصیتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنی کامیابی کے لئے نئی نئی راہیں نکالی ہیں اور آمریت کو جمہوریت کا چوغہ پہنا دیا ہے اور جمہوریت کا نعرہ بلند کر کے اپنی آمرانہ خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں اور پریس کے ذریعہ ودیگر ذرائع کے توسط سے وہ دنیا کے سامنے اپنی جمہوریت کا ڈھنڈورہ پیٹتے چلے جاتے ہیں۔
یہ دور ذہنی عروج کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ انسان ہر لمحہ کسی نہ کسی رنگ میں جدت طرازی میں مصروف ہے۔ چنانچہ اس عہد میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے مذہبی لبادہ اوڑھ کر جمہوریت کا علم لہرایا اور آمریت کی بنیادیں استوار کرنا شروع کر دیں اور الہام وکشوف کے ذریعہ فطرت انسانی کی خوف کھانے والی حس سے فائدہ اٹھانے کی تگ ودو میں مصروف ہوگئے۔ لہٰذا آمریت کی یہ قسم اپنی جگہ پر بالکل جدید اور اسے منظر عام پر لانے والی شخصیت جو مرزامحمود کے نام سے مشہور ہے، کی اپنی جدت ہے اور اس پر انہیں مبارک باد نہ دینا ناانصافی ہوگا۔
الغرض اس وقت میرے پیش نظر ربوہ حاضر کا وہ مذہبی آمر ہے جس کی آمریت آہنی پردوں کے پیچھے جنم لیتی ہے اور اسے جمہوریت کا چوغہ پہنا کر بھولے بھالے لوگوں کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے اور وہ اسے جمہوری اقدار کی سربلندی تصور کرتے ہوئے امیرالمؤمنین زندہ باد کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس آمریت کو محمودیت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ جس کا