لئے زبان کے سانچے نہیں بنے۔ اگر ان کو بیان کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو ادب کی پیشانی پر شکنیں پڑ جائیں۔ قصر خلافت، عفت اور عصمت کی لاشوں کا قبرستان ہے۔ کیونکہ وہ افعال دیکھنے پر بھی مانے نہیں جاسکتے۔ سننے پر کیسے تسلیم ہوسکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے:
زندگی جبر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک؟
ان فضاؤں میں ابھی موت پلے گی کب تک؟
جب خلافت مآب کی سنگین خلوتوں کے رنگین راز باہر فضا میں نالۂ دل اور دود چراغ محفل بن کر پھیلے تو اپنی صفائی میں حضرت فاروقؓ سے افضل بننے والے نے یہ مطالبہ کیا کہ ایک واقعہ کے چار گواہ لاؤ۔ کبریائی کا دعویٰ اور صفائی کا یہ معیار؟ اس طریق سے تو قحبہ خانے کے لوگ بھی زنا کے الزام کی تردید کر سکتے ہیں۔ خدا کے بندے اپنی صفائی کے لئے دنیاوی عدالتوں کے وضع کردہ حیلوں کا سہارا نہیں لیتے۔ وہ اپنی حفاظت کے لئے خدا کا فیصلہ جو ہر وقت یہ کہتا ہے ’’خداکی انگلی ہل رہی ہے خدا میری طرف بھاگا آرہا ہے۔‘‘ اپنی صفائی کے لئے آسمان پر دستک دینے سے خائف ہے۔ تیس سال سے اس کو مباہلہ کا چیلنج دیا جارہا ہے۔ مسٹر یوسف ناز کی مؤکد بالعذاب قسم نے اس کو کہیں کا نہیں رکھا۔خلیفہ کے ماموں نے جو ڈاکٹر تھے ۱۹۳۷ء میں انہی الزامات کے جواب میں کہا تھا کہ جماعت کو ان پر کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ اگر ان میں حقیقت ہے تو وہ خلیفہ کی دماغی صحت کے زوال میں جلوہ گر ہوکر رہے گی۔ چنانچہ اب وہ وقت آگیا ہے۔ اب خلیفہ کے دل ودماغ پر نسیان وہذیان کا غلبہ ہے۔ ان کی گفتگو غیرواضح، ان کی نماز اور خطبات بے ربط ہوچکے ہیں۔ کیونکہ جس سرعت اور عجلت سے وہ سجدے کرتے ہیں۔ وہ ایک مجنون کی سیمابی حرکات معلوم ہوتی ہیں۔ اب لوگوں نے بھی تخلئے میں کہنا شروع کر دیا ہے کہ خلیفہ کے پیچھے نماز کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔لیکن ان کو کوئی روک نہیں سکتا۔ خدا کے گھر میں قادیانیوں کی نمازیں ان کی خود ساختہ خلافت کے ہاتھوں رسوا ہورہی ہیں اور یہ بول نہیں سکتے۔ ان کے خطبے بھی شعبہ زود نویسی کی ذمہ داری پر شائع ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ کچھ کہتے ہیں اور ترمیم وتنسیخ کے بعد کچھ اور شائع ہوتے ہیں۔ علماء کا منقار زیر پر ہونا تعجب کا مقام ہے۔ کیونکہ عبادت کی تضحیک پر بھی ان کی رگ حمیت نہیں پھڑکتی۔
چونکہ ساری قادیانی ملت اپنے خلیفہ کے جرائم میں شریک رہی ہے۔ اس واسطے خدا کی بطش شدید سے بچ نہیں سکتی۔ اگر محض خلیفہ کی ذات کا معاملہ ہوتا تو رسی اور دراز ہو جاتی مگر ساری ملت اپنے کردار کے عواقب سے بچ نہیں سکتی ؎
فطرت افراد سے اغماز تو کر لیتی ہے
پر نہیں کرتی وہ ملت کے گناہوں کو معاف
عطاء الرحمن، گجرات، مورخہ ۵؍جولائی ۱۹۵۸ئ!