لگتا۔ لیکن اگر کوئی اپنی ہتھیلی میں دانے رکھ کر اس کو دکھانے کی کوشش کرے تو نہ وہ دانے دیکھے گی اور نہ وہ اڑ کر آئے گی۔ اپنی خوراک مداری کے ہاتھوں سے ہی لے گی۔ خلیفہ نے پینتالیس سالہ تربیت سے اپنے مریدوں میں سرکس کے شیر اور مداری کی چڑیا والی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ جس طرح شیر سرکس سے الگ ہوکر جنگل میں نہیں جاسکتا اور چڑیا پنجرے سے اڑ کر دوسری چڑیوں میں نہیں مل سکتی۔ کیونکہ وہ دونوں اپنی فطری داعیات سے عاری ہوچکے ہوتے ہیں اور وہ اس مغائرت پر جوان میں اور ان کے ہم جنسوں میں پیدا ہوچکی ہے، غالب نہیں آسکتے۔ یہی حال قادیانیوں کا ہے۔ وہ خلافت مآب کی خلوتوں کا مشاہدہ کرتے اور تعزیروں کا نشانہ بنتے ہیں۔ لیکن وہ اس عذاب حیات سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ زبان حال سے کہتے ہیں، جائیں تو جائیں کہاں؟ خلافتی سرکس نے نظام اور تنظیم کو اپنے اور اپنے خاندان کے لئے رحمت اور جماعت کے لئے لعنت بنادیا ہے۔ قادیانی جماعت میں نظام کی وہی کیفیت ہے جو شریعت کی یہودیوں میں ہوگئی ہے۔ نظام اس وقت تک رحمت ہے جب تک وہ جماعتی بہبود کے لئے ہو۔ لیکن جب جماعت کے مفادات نظام کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھنے لگیں تو یہ آمریت کا شکنجہ بن جاتا ہے اور جو لوگ نفسیاتی تربیت اور اضطرارت مشروط کی تدبیروں سے اس شکنجے میں مقید ہوجاتے ہیں۔ ان کی بصارت اور بصیرت ڈکٹیٹر کی مرضی کے تابع ہوتی اور ان کو کہنا سننا بیکار ہوتا ہے۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
پہلی جنگ عظیم کے بعد جب شہزادہ ویلز ہندوستان کی سیاحت کے لئے لاہور میں وارد ہوئے تو خلیفہ کورنش بجالانے کے لئے قادیان سے آئے۔ اس وقت ان کے موٹر کے پھریرے پر His Holiness لکھا تھا۔ حالانکہ عیسائیوں میں پوپ His Holiness کہلاتا ہے۔ وہ بھی بادشاہوں اور شہزادوں کے پاس نہیں جاتا۔ اس ایک غلامانہ فعل سے خلیفہ کے فضل عمر ہونے کی بھی قلعی کھل گئی۔ حضرت فاروق اعظمؓ رب ذوالجلال کے علاوہ کسی بادشاہ کے دربار میں جانا اپنی خلافت کی توہین سمجھتے تھے۔ لیکن کہاں قادیانی ناٹک کا بہروپیا اور کہاں نقیب چشم رسولﷺ! لیکن اس خلیفہ کا بیک وقت His Holiness اور حضرت عمرؓ سے افضل بننا کسی قادیانی کی عقل ودانش پر گراں نہیں گزرتا۔ چونکہ قیادت کی صحت اور صلاحیت کے بقا کے لئے جماعت کا غیور ہونا ضروری ہے اور جونہی جماعت میں غیرت ختم ہوتی ہے جماعت کا امام کبائر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں اس کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں رہتا۔ یہی حال ’’خلافت مآب‘‘ کا ہوا۔ انہوں نے جنون زوج سے مغلوب ہوکر وہ وہ حرکات کی ہیں کہ ان کے بیان کے