اس خوف وہراس کی کیفیت کو عقیدت کہا جاتا ہے۔ کتنے پاک لفظ کاکتنا ناپاک استعمال ہے۔ مرشد سے صحیح عقیدت کر گس کو بھی شاہین بنادیتی ہے۔ لیکن جس عقیدت سے شاہین کرگس بن جائیں وہ ذہنی غلامی کا بدترین نمونہ ہے۔ کبھی اس دینیاتی استبداد کو نظام کہا جاتا ہے اور اس نظام کے آئینی ہونے پر فخر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ جس نظام کا مزاج افادی ہو اس کو آہنی ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی نظام کو آہنی ہونے کی ضرورت ہے جو انسان کی جبلتوں کو مردہ کر کے زندہ رہ سکتا ہے۔
اس قادیانی نظام میں عقل وخرد کو اس واسطے ذبح کیا جاتا ہے کہ ان کے فروغ سے دینی آمریت کا چراغ گل ہو جاتا ہے۔ خلافت مآب کے نظام میں اخلاقی جرائم کی سزا رسمی اور عارضی ہوتی ہے۔ ربوہ میں شاید ہی کوئی ایسا ناظر یا عالم ہوگا جس پر کسی اخلاقی لغزش کی پاداش میں خلیفہ نے فرد جرم نہ لگایا ہو۔ لیکن وہ مجرم کبھی اپنے عہدے سے برطرف نہیں ہوا۔ اگر برطرف ہوا بھی تو بحال ہوگیا۔ چیدہ علماء کو ’’طاعونی چوہے اور جمعراتی ملاؤں‘‘ کے القاب عطاء ہائے۔ مگر وہ بدستور فائز المرام رہے۔ ان کے ایک برادر نسبتی ناظر امور عامہ تھے۔ ان کے متعلق شارع عام میں بورڈ پر یہ اعلان ہوا کہ وہ عادتاً جھوٹ بولتے ہیں۔ لوگ ان سے متنبہ رہیں۔ لیکن وہ اس وقت اپنے منصب سے الگ نہ کئے گئے۔ اس کے برعکس کسی کے متعلق خلافت مآب کو یہ شبہ ہو کہ وہ ان کی کسی رائے سے اختلاف رکھتا ہے یا اس نے کوئی نکتہ چینی کی ہے تو اس پر تعزیرات سے عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ گویا قادیانی نظام میں خدائی نافرمانی قابل عفو ہے۔ مگر خلیفہ کی نافرمانی کا محض شک بھی ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے۔ اسی واسطے ایمان بالخلافت پران دنوں بڑا زور ہے۔
جماعت کے افراد کا بے بس ہو جانا خلافت مآب پر ایک سنگین طنز ہے۔ اگر یہ عقیدت بھی سمجھی جائے تو اس میں کوئی خصوصیت نہیں۔ کیونکہ دوسرے پیرخانوں کا بھی یہی حال ہے۔ مرید اپنے مرشد کی ہر لغزش کو ثواب سمجھتے ہیں۔ ایسی کیفیت کیوں پیدا ہو جاتی ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ یہ ایک نفسیاتی بے بسی ہے جو سرکسی تربیت سے ہر پیر اپنے پیروؤں میں پیدا کر دیتا ہے۔ سرکس کا رنگ ماسٹر Ring Master درندوں کو سدھا کر ان سے وہ کام لیتا ہے جو ان کی فطرت کے منافی ہوتے ہیں۔ سرکس کا شیر اپنے رنگ ماسٹر کے چابک کی آواز پرناچتا ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ درندے کی فطرت کو مسخ کرنا اس پر احسان ہے۔ ایک عام مداری چڑیا کی ایسی تربیت کردیتا ہے کہ وہ عام مجمعے میں تماشائیوں کے ہاتھوں سے تانبے، چاندی کے سکے چونچ میں لاکر مداری کی گود میں ڈال دیتی ہے اور اس کام کے لئے اس کو تماشائیوں کے ہجوم سے ڈر نہیں