سے کٹ گئے تھے۔ ان کا ملجاو ماویٰ قادیان (اب ربوہ) بن گیا تھا۔ اس پر قدرت کی ستم ظریفی کہ خلیفہ کو اپنی جماعت کی تربیت کے لئے اس وقت تک تینتالیس سال ملے اور اس طویل مدت میں قادیانیوں کی کئی نسلیں خلافتی استبداد سے بگڑ گئیں۔ خلیفہ کے سارے پروگراموں کا مفاد اپنی آمریت کو قائم کرنا اور جماعت میں سمعنا واطعنا کی ذہنیت پیدا کرنا تھا۔ انہوں نے جماعت میں عملاً وہی مرتبہ پیدا کیا جو مذہب میں نبی اور سیاست میں ڈکٹیڑ کو ہوتا ہے۔ اس تخریبی تربیت کے لئے انہوں نے خواب اور رؤیا کا سہارا لیا۔ کیونکہ ان کے سامنے دلیل اور حجت کی گنجائش نہیں رہتی اور پھر اپنے خوابوں کے قافلے کو اس ہنر مندی اور چابکدستی سے چلایا کہ مریدان کو الہام اور وحی متصور کر کے اپنی عقل کو معطل کر دیتے رہے۔ جماعت کے اندر دینی اصطلاحات کو رائج کیا تاکہ کسی مرید کی نظر ان کے ذاتی اعمال پر نہ پڑے۔ اگر کوئی بیباک نظر پڑ بھی جائے تو دوسروں کی اندھی ارادت اس کو بے اثر کر دے۔ اگر یہ بھی کارگر نہ ہو تو مرکز میں خلافت مآب کا معاشی شکنجہ تنقید کی قوتوں کو مفلوج کرنے کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ مرکز میں ہی افشائے راز کا خطرہ ہے اور مرکز میں ہی خلافت مآب کی گرفت ہمیشہ آہنی رہی ہے۔ الفضل کے صفحات سوشل بائیکاٹ کے اعلانات سے معمور ہیں۔ جس کا بائیکاٹ ہوتا ہے اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی عزیز ترین رشتہ دار مرض اور موت کے وقت بھی اس کے لئے رحم کے جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی معمولی ہمدردی کاکام کر بیٹھتا ہے یا اس کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس انحراف کی پاداش میں اسی روح فرسا مقاطعہ کا شکار ہو جاتا ہے اور ہر مقاطعہ پر بڑی بے باکی سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ رسول اﷲﷺ بھی منحرفین کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھتے تھے۔ (توبہ نعوذ باﷲ)
پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ اپنی آمرانہ ہنر مندی سے خلیفہ اپنے مریدوں سے اسی قسم کی غیرمسئول اطاعت چاہتے ہیں جو صحابہ کرام کو حضرت رسول اکرمﷺ سے تھی۔ رحمت اللعالمینﷺ پر یہ ابلیسانہ بہتان کسی قادیانی کو ناگوارنہ گزرا۔ اگر کسی میں اسی پر انقباض پیدا ہوتا بھی ہے تو خلافتی استبداد سے ڈر کر اس کا اظہار نہیں کرتا۔ یہ اس جماعت کا حال ہے جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے اور سارے مسلمانوں کو کافر کہہ کر ان پر غالب آنے کی آرزو رکھتی ہے۔ عملاً محض معمولی اختلاف کے خفیف شبہ پر اس بائیکاٹ کو روا رکھتی ہے جو ابوجہل کی قیادت میں کفار مکہ مسلمانوں کے خلاف نافذ کیا کرتے تھے۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا