جب اس شاطر سیاست کے خفیہ اڈوں پر حکومت چھاپہ مارتی ہے تو یہ اسلحہ اور کاغذات کمال ہوشیاری سے زیر زمین دفن کر دیتا ہے۔ قادیان کی سرزمین میں فسادات کے موقع پر احمدی نوجوانوں اور سابق فوجیوں کے ہاتھوں جو ماڈرن اسلحہ مہیا کیا اور ان کی فوجی گاڑیاں حرکت میں آئیں تو اس پر حکومت کی طرف سے یکدم چھاپہ پڑا۔ جس کی اطلاع قبل از وقت خلیفہ کو نہ ہوسکی۔ کیونکہ وہاں احمدی سی آئی ڈی ناکام رہی۔ لیکن خلیفہ کی اپنی اہرمنی فراست ان کے کام آئی۔ کیونکہ جب پولیس سرپر آگئی تو اس مقدس، پاکباز، ملہم، مصلح دوراں نے اپنی مستورات کی چھاتیوں پر خفیہ دستاویزرات باندھ کر کوٹھی دارالسلام (قادیان) بھجوا دیں اور قادیانی فوجیوں نے فوراً اسلحہ زیرزمین کر دیا۔ ۱۹۵۳ء کے فسادات اور پھر مارشل لاء کے اختتام پر جب گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ ربوہ کے فوجی اور ربوی پولیس کے دفاتر اور قصر خلافت پر چھاپہ مارا جائے تو یہ خبر دو دن قبل ربوہ پہنچ گئی۔ خفیہ اور ضروری کاغذات جن پر خلیفہ کے دستخط تھے۔ ان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ تلف کر دیا گیا اور دوسرا حصہ چناب ایکسپریس پر سندھ روانہ کر دیا گیا۔ جب پولیس دفتر کی تلاشی لے رہی تھی۔ خفیہ کاغذات قادیانی اسٹیٹوں میں چھپائے جارہے تھے۔ خلیفہ ہر اس فرد کو بغاوت کا حق دیتے ہیں۔ جس نے دل سے اور عمل سے حکومت وقت کی اطاعت نہ کی ہو۔ ایک دفعہ کسی شخص نے خلافت مآب سے پوچھا کہ جس ملک کے لوگوں نے کسی حکومت کی اطاعت نہ کی ہو کیا انہیں حق ہے کہ وہ اس حکومت کا مقابلہ کرتے رہیں؟ تو ارشاد ہوا کہ: ’’اگر کسی قوم کا ایک فرد بھی ایسا باقی رہتا ہے جس نے اطاعت نہیں کی نہ عمل سے نہ زبان سے تو وہ آزاد ہے اور دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے مقابلہ کر سکتا ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۹؍ستمبر ۱۹۳۴ئ)
پھر فرماتے ہیں: ’’اگر تبلیغ کے لئے کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کی جائے تو ہم یا تو اس ملک سے نکل جائیں گے۔ یا پھر اگر اﷲتعالیٰ اجازت دے تو پھر ایسی حکومت سے لڑیں گے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۱۳؍نومبر ۱۹۳۵ئ)
یعنی ایک حکومت میں رہ کر اس کے متعلق اعلان جنگ کے مواقع اور ان پر غور سب کچھ ہوسکتا ہے۔ بغاوت کا ذکر ہورہا ہے تو ایک اور ارشاد بھی سنئے۔ فرماتے ہیں: ’’شاید کابل کے لئے کسی وقت جہاد کرنا پڑ جائے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۲۲ئ)
خلیفہ نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ: ’’جماعت ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے کہ بعض حکومتیں بھی اسے ڈر کی نگاہ سے دیکھنے لگی ہیں اور قومیں بھی اسے ڈر کی نگاہ سے دیکھنے لگی ہیں۔‘‘
(الفضل مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۳۸ئ)