کے اعلانات کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ محراب ومنبر کے سیاق وسباق میں پناہ گزین ہوکر وہ سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں۔ وہ سیاست کی سربلندیوں سے سرفراز تو ہونا چاہتے ہیں۔ مگر اس کی ابتلاء انگیزیوں کے حریف نہیں ہو سکتے۔ اس واسطے ان کا نظریہ خروج پہلو دار باتوں میں ملفوف ہوکر ان کے مریدوں کے سامنے آتا ہے۔ مثلاً وہ اکثر کہا کرتے ہیں۔ ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے اس کی روح کو کچل دیں گے۔ ایسے ہی مقاصد کے لئے یہ دفتر امور عامہ ایسے احمدی افسران جو گورنمنٹ یا ڈسٹرکٹ بورڈوں یا فوج یا پولیس، سول، بجلی، جنگلات، تعلیم وغیرہ کے محکموں میں کام کرتے ہیں۔ ان کے مکمل پتے مہیا رکھتا ہے۔
(الفضل مورخہ ۸؍نومبر ۱۹۳۶ئ)
کبھی ان پر سیاست کا ایسا جنون مسلط ہوجاتا ہے کہ وہ حزم واحتیاط کے سارے پردے چاک کر کے برملا کہہ دیتے ہیں۔ ’’پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم میں سیاست نہیں وہ نادان ہیں۔ وہ سیاست کو سمجھتے ہی نہیں۔ جو شخص یہ نہیں مانتا کہ خلیفہ کی بھی سیاست ہے وہ بیعت ہی کیا کرتا ہے۔ اس کی کوئی بیعت نہیں۔ دراصل بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاست گورنمنٹ کی سیاست سے بھی زیادہ ہے۔ پس اس مسئلہ کو اگر میں نے باربار بیان نہیں کیا تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ میں نے اس سے جان بوجھ کر اجتناب کیا۔ آپ لوگوں کو یہ بات خوب سمجھ لینی چاہئے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی ہے اور جو شخص یہ نہیں مانتا وہ جھوٹی بیعت کرتا ہے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۳؍اگست ۱۹۲۶ئ)
اسی دھن میں خروجی عزائم کو یوں بے نقاب کرجاتے ہیں: ’’میرا یہ خیال ہے کہ ہم حکومت سے صحیح تعاون کر کے جس قدر جلد حکومت پر قابض ہوسکتے ہیں، عدم تعاون سے نہیں اگر ہم کالجوں اور سکولوں کے طلباء کے اندر یہ روح پیدا کر دیں تو جوان میں سے ملازمت کو ترجیح دیں وہ اس غرض سے ملازمت کریں کہ اپنی قوم اور اپنے ملک کو فائدہ پہنچائیں گے تو یہ لوگ چند ماہ میں ہی حکومت کو اپنی آزاد رائے اور بے دھڑک مشورے سے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ہندوستانی نقطہ نگاہ کی طرف مائل ہو بے شک ایسے لوگوں کی ملازمت خطرہ میں ہوگی۔ مگر جب یہ لوگ ملازم ہی اس خطرہ کو مدنظر رکھ کر ہوئے ہوں گے ان کے دل اس بات سے ڈریں گے نہیں۔ دوسرے کوئی گورنمنٹ ایک وقت میں ہزاروں لاکھوں ملازموں کو اس جرم میں الگ نہیں کر سکتی کہ تم کیوں سچائی سے اصل واقعات پیش کرتے ہو۔ اگر پولیس کے محکمہ پر ہی ایسے حب الوطنی سے سرشار لوگ قبضہ کر لیں تو حکومت ہند میں بہت کچھ اصلاح ہوسکتی ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۸؍جولائی ۱۹۲۵ئ)