ان اقتباسات سے بالکل عیاں ہے کہ خلیفہ اپنی جماعت کے ذہنوں میں اسی جنون کی پرورش کر رہے ہیں جو ان کے اپنے ذہن میں سمایا ہوا ہے۔ انہوں نے ربوہ کو اپنی کمین گاہ بنا رکھا ہے اور اسی تاک میں بیٹھے ہیں کہ کب وطن عزیز میں انتشار ہو اور وہ اس سے فائدہ اٹھا کر اقتدار کی نشستوں پر قابض ہوکر ملک کے حکمران بن جائیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ: ’’قبولیت کی رو چلانے کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۱؍جولائی ۱۹۳۶ئ)
ان کا اپنا قول ہے کہ: ’’پنجاب جنگی صوبہ کہلاتا ہے۔ شاید اس کے اتنے یہ معنے نہیں کہ ہمارے صوبہ کے لوگ فوج میں زیادہ داخل ہوتے ہیں جتنے اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمارے صوبہ کے لوگ دلیل کے محتاج نہیں بلکہ سونٹے کے محتاج ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۷؍جولائی ۱۹۳۶ئ)
گویا خلیفہ مغرب کی Big Stick پالیٹکس کے قائل ہیں۔ لیکن کیا کریں۔
توفیق با اندازۂ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ جو گوہر نہ ہوا تھا
چنانچہ محکومی کی حالت میں بھی خارجی حکومتوں سے سازباز کے متمنی ہیں اور اس کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ مثلاً فرماتے ہیں: ’’کہ کوئی قوم دنیا میں بغیر دوستوں کے زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس لئے زیادہ مجرم اور کوئی قوم نہیں ہوسکتی جو اپنے لئے دشمن تو بناتی ہے مگر دوست نہیں۔ کیونکہ یہ سیاسی خود کشی ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۸؍جون ۱۹۲۶ئ)
اب پاکستان میں رہتے ہوئے اس کے دشمنوں کے حلیف بننے کی کوشش کیوں نہیں کریں گے۔ چاہے اس کی کوئی سی بھی صورت ہو۔ مثلاً وہ راز افشاء کر کے پاکستان کے دشمنوں کے دلوں میں جگہ پیدا کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ انہوں نے فوج کے ایک کرنل کی طرف یہ منسوب کیا کہ اس نے دوران گفتگو میں ان سے یہ کہا کہ: ’’حالات پھر خراب ہورہے ہیں۔ لیکن اس دفعہ فوج آپ کی مدد نہیں کرے گی۔‘‘ (الفضل مورخہ ۸؍مارچ ۱۹۵۷ئ)
’’جب پہلی دفعہ خلیفہ کی یہ تقریر الفضل میں چھپی تو اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ کرنل نے کہا کہ: ’’فوج آپ کی مدد نہیں کرے گی۔ کیونکہ وہ بدنام ہوچکی ہے۔‘‘
جب اخبارات میں اس قابل اعتراض بات پر تبصرے ہوئے تو خلیفہ کے ایماء سے ان کی وہی تقریر دوبارہ شائع ہوئی اور ان میں سے وہ فقرہ حذف کر دیا گیا جس میں فوج کی بدنامی کی طرف اشارہ تھا۔ تردید کرنے کی اخلاقی جرأت نہ تھی۔ ہاں! قانون سے بچنے کا حیلہ نکال لیا۔