آزادی سے سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سے بڑے بڑے مفکر اور سائنس دان بھاگ کر جمہوری ملکوں میں آباد ہوگئے تھے۔ جاپان میں دوسری عالمگیر جنگ سے پہلے شاہ میکاڈو کی حکومت میں پولیس کا ایک حصہ تھا۔ جس کو Thought Police کہتے تھے۔ اس کا یہ فرض تھا کہ وہ ملک میں گفتار وکردار کے علاوہ افکار کا جائزہ لیتی رہے۔ یہی حال قادیانی میکاڈو کا ہے۔ یہ بھی اپنی مملکت میں کسی کو نہ سوچنے دیتا ہے نہ ہی کسی کو یہ اجازت ہے کہ وہ آزادانہ طور پر تصنیفی یا تالیفی کام کرے۔ ان کے ہاں اس Thought Police کو نظارت تالیف واشاعت کہتے ہیں۔ بظاہر یہ کتنی معصوم اصطلاح ہے۔ حالانکہ اس کا اوّلین فرض ہے کہ تالیف اور اشاعت پر قفل لگادے۔ اگر اس کو نظارت تعزیر واحتساب کہا جاتا تو زیادہ صحیح ہوتا۔ قاعدہ یہ ہے کہ: ’’تمام وہ لٹریچر جو احمدی احباب تصنیف فرماویں۔ اگر وہ کسی موضوع پر ہو تو محکمہ تالیف واشاعت میں روانہ فرماویں اور محکمہ مذکورہ بعد ملاحظہ وتصحیح ضروریہ اسے اشاعت کے لئے منظور کرے اور کوئی کتاب یا رسالہ بغیر محکمہ مذکور کے پاس کرنے کے احمدیہ لٹریچر میں شائع نہیں ہوسکتا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۲۲ئ)
’’اسی طرح مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ نے بمنظوری حضرت خلیفہ بذریعہ ریزولیوشن نمبر ایک ۱۹۲۸ء یہ فیصلہ کیا تھا کہ سلسلہ کی طرف سے کوئی کتاب ٹریکٹ وغیرہ بغیر منظوری نظارت تالیف واشاعت چھپنے اور شائع ہونے نہ پائے۔ اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو اس کتاب کی اشاعت بند کر دی جائے گی۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۹؍جنوری ۱۹۳۳ئ)
چنانچہ ان تجاویز پر عمل شروع کر دیا گیا۔ ’’المبشر‘‘ نام سے قادیان سے ایک رسالہ نکلتا تھا جس کے ایڈیٹر ایک مشہور قادیانی صحافی تھے۔ لیکن ریاست محمودیہ کے نزدیک: ’’بعض نقائص ایسے تھے کہ ان کے ہوتے ہوئے المبشر کو مرکز سلسلہ سے شائع کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ ‘‘ (الفضل مورخہ ۲۸؍اگست ۱۹۳۷ئ)
’’اسی طرح اعلان کیاگیا کہ کتاب بیان المجاہد (جو مولوی غلام احمد سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ وتعلیم الاسلام کالج) نے شائع کی ہے۔ کوئی صاحب اس وقت تک نہ خریدیں جب تک نظارت دعوۃ وتبلیغ کی طرف سے اس کی خریداری کا اعلان نہ ہو۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۳ئ)
’’ایک ٹریکٹ کے متعلق اعلان کیاگیا کہ اس ٹریکٹ کو ضبط کیا جاتا ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ جس صاحب کے پاس یہ ٹریکٹ موجود ہو۔ ورنہ اسے فوراً تلف کر دیں اور شائع کرنے والے صاحب سے جواب طلب کیاگیا ہے اور انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ جس قدر کاپیاں اس