وہ فوج تھی جو Camp وغیرہ کرنے دریائے بیاس کے کنارے بھی بھیجی گئی تھی۔‘‘
(الفضل مورخہ ۱۴؍ستمبر ۱۹۳۳ئ)
یاد رہے دریائے بیاس کا ہی وہ رنگین اور پربہار کنارہ تھا جہاں خلیفہ اپنی مستورات اور دیگر نامحرم لڑکیوں کو لے جا کر چاند ماری کی مشق کرایا کرتے تھے۔
جبری بھرتی
اس فوج کے لئے خلیفہ نے جبری بھرتی کا اصول اختیار فرمایا تھا: ’’میں ایک دفعہ امور عامہ کو توجہ دلاتا ہوں… کہ میرا فیصلہ یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر سے لے کر پینتیس سال کی عمر تک کے تمام نوجوانوں کو اس میں جبری طور پر بھرتی کیا جائے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۳ئ)
اس فوج کی باقیات الصالحات تھی۔ جس کے باوردی والنٹیرز نے سر ڈگلس ینگ جو اس وقت پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے کا استقبال کیا تھا۔ (الفضل مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۳۹ئ) اور لاہور جاکر پنڈت جواہرلال نہروکو بھی سلامی دی تھی۔
ابتداء میں ناظر امور عامہ نے اس فوج کی کمان سنبھالی تھی۔ لیکن جلد ہی خلیفہ کی بارگاہ سے اس بارہ میں سرزنش آگئی: ’’کمانڈر انچیف اور وزارت کا عہدہ کبھی بھی اکٹھا نہیں ہوا۔‘‘
(الفضل مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۳۳ئ)
اس فوجی تنظیم کے بروقت قیام پر خلیفہ کو اتنا ناز تھا کہ سرکاری گزٹ الفضل نے ایک موقعہ پر لکھا کہ: ’’حضور نے احمدیہ کور کی جو سکیم آج سے تقریباً پانچ سال پہلے تجویز فرمائی تھی اس کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ عام اقوام تو الگ رہیں اس وقت بعض بڑی بڑی حکومتیں بھی اپنی قوت مدافعت میں اضافہ کرنے کے لئے بعض ایسے احکام نافذ کر رہی ہیں کہ جو اس تحریک کے اجزاء ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۲؍اگست ۱۹۳۹ئ)
اگر قادیانی خلافت کا مقصد محض روحانی اور اشاعت اسلام تھا تو اس مقدس مقصد کے لئے تصنیفی، تالیفی اور اشاعتی ادارے قائم ہوتے نہ کہ فوجی تربیت پر زور دیا جاتا اور اس کے لئے ایک باقاعدہ عسکری نظام قائم کیا جاتا۔ اصل میں خلیفہ کے لاشعور میں بادشاہ بننے کی آرزوئیں انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ اشاعت اسلام کا نعرہ محض دھوکے کی ٹٹی تھی۔ کیونکہ قادیانی عوام کالانعام سے روپیہ وصول کرنے کا اور کوئی طریق نہیں تھا۔ اسلام کے نام پر حاصل کیا ہوا روپیہ ہوس اقتدار کی تسکین پر صرف ہوجاتا۔ یہ طرز عمل نہ صرف ان کی نیت اور ارادے کی غمازی کرتا ہے۔ بلکہ ان کے سیاسی منصوبوں کو بھی طشت ازبام کرتا ہے۔ اپنے عسکری مقاصد کے حصول کے لئے خدام