دوسرے نوجوانوں کو سکھلائیں اور ان کی ایسی تنظیم کریں کہ ضرورت کے وقت مفید ثابت ہوسکیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۷؍اگست ۱۹۳۲ئ)
’’صدر انجمن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ انجمن کے تمام کارکن والنٹیر کور کے ممبر ہوں گے اور مہینہ میں کم سے کم ایک دن اپنے فرائض منصبی کور کی وردی میں ادا کریں گے۔ نیز بیرونی جماعتوں کے امراء وپریذیڈنٹ بحیثیت عہدہ مقامی کور کے افسر اعلیٰ ہوں گے۔ ہر مقام کی احمدی جماعتوں کو اپنے ہاں کور کی بھی بھرتی لازمی ہوگی۔ جہاں کور کے ایک سے تین دستے ہوں گے۔ جن میں سے ہر ایک سات آدمیوں پر مشتمل ہوگا۔ وہاں ہر دستہ کا ایک افسر دستہ مقرر ہوگا اور جہاں چار دستے ہوں گے وہاں ایک پلٹون سمجھی جائے گی جس پر ایک افسر دستہ کے علاوہ ایک افسر پلٹون بھی ہوگا اور ایک نائب افسر پلٹون مقرر کیا جائے گا۔ جہاں چار پلٹونیں ہوں گی وہاں پر پلٹون کے مذکورہ بالا افسروں کے علاوہ ایک افسر کمپنی اور ایک نائب افسر کمپنی بنادیا جائے گا۔حضرت امیرالمؤمنین نے احمدیہ کور کو اپنی سرپرستی کے فخر سے بھی سرفراز کرنا بھی منظور فرمالیا ہے۔ ‘‘
(الفضل مورخہ ۷؍اگست ۱۹۳۲ئ)
’’حضورکا منشا وارشاد اس تحریک کو نہایت باقاعدگی اور عمدگی کا ساتھ چلانے کا تھا۔‘‘
(الفضل یکم؍ستمبر ۱۹۳۲ئ)
’’یکم؍ستمبر صبح سات بجے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی گراؤنڈ میں احمدیہ کور ٹریننگ کلاس کا آغاز زیر نگرانی حضرت صاحبزادہ کیپٹن مرزاشریف احمد صاحب ہوا۔‘‘ (الفضل مورخہ یکم؍ستمبر ۱۹۳۲ئ)
یہ فوج علاوہ دوسرے کاموں کے اپنے سربراہ کی سلامی بھی اتارا کرتی تھی۔ چنانچہ ایک دفعہ مرزاشریف احمد ناظم احمدیہ کور کو بذریعہ تار خبر موصول ہوئی کہ: ’’خلیفہ کا یکم؍اکتوبر ۱۹۳۲ء صبح دس بجے یا تین بجے بعد دوپہر تشریف فرمائے دارالامان ہوں گے۔ احمدیہ کور کارکنان صدر انجمن احمدیہ اور بہت سے دیگر افراد حسب الحکم حضرت میاں شریف احمد کور کی وردی میں ملبوس ہوکر ہائی سکول کے گراؤنڈ میں جمع ہوگئے۔ جہاں سے مارچ کراکر بٹالہ والی سڑک پر کھڑے کر دئیے گئے۔ خلیفہ صاحب تشریف لائے۔ فوج نے فوجی طریقہ پر سلامی اتاری۔ حضور نے ہاتھ کے اشارے سے فوجی سلام کا جواب دیا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۹۳۲ئ)
’’اس فوج کا اپنا ایک خاص جھنڈا بھی تھا جو سبز رنگ کے کپڑے کا تھا اور اس پر منارۃ المسیح بناکرایک طرف اﷲ اکبر اور دوسری طرف عباداﷲ لکھا ہوا تھا۔ جو اس فوج کا اصلی نام تھا۔ یہی