’’ڈاکٹر محمد اسمٰعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود کو صفائی کا بہت خیال تھا۔ خصوصاً طاعون کے ایام میں اتنا خیال رہتا تھا کہ فینائل لوٹے میں حل کراکے اپنے ہاتھ سے گھر کے پاخانوں اور نالیوںمیں جاکر ڈالتے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات حضرت مسیح موعود گھر میں ایندھن کا بڑاڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوایا کرتے تھے تاکہ ضرر رساں جراثیم مرجائیں اور آپ نے ایک بڑی انگیٹھی بنوائی ہوئی تھی جسے کوئلہ ڈال کر اور گندھک وغیر ہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا اور اس وقت دروازے بند کردئیے جاتے تھے اور اس کی اتنی گرمی ہوتی تھی کہ جب انگیٹھی کے ٹھنڈا ہوجانے کے ایک عرصہ بعد بھی کمرہ کھولا جاتا تو پھر بھی وہ اندر سے بھٹی کی طرح تپتا تھا۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم ص۵۹، روایت نمبر۳۷۹، مصنفہ صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی)
’’جب طاعون کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت مسیح موعود نے بٹیر کا گوشت کھانا چھوڑ دیاکیونکہ آپ فرماتے تھے کہ اس میں طاعونی مادہ ہوتا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۵۰، روایت نمبر۵۶)
’’جب ہندوستان میں پیشینگوئی کے مطابق طاعون کا مرض پھیلا اور پنجاب میں بھی اس کے کیس دہونے لگے تو حضرت مسیح موعود نے اس کے لئے ایک دوائی تیار کی۔ اس کا نام تریاق الٰہی رکھا۔‘‘ (مفتی محمد صادق قادیانی کی تقریر مندرجہ الفضل ج۳۴؍ ۱۴؍۱۴؍اپریل ۱۹۲۶ئ)
’’وبائی ایام میں حضرت مسیح موعود اس قدر احتیاط کیا کرتے تھے کہ اگر کسی کارڈ کو بھی جو وباء والے شہر سے آتا چھوتے تو ہاتھ ضرور دھو لیتے۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز اگست ۱۹۲۸ئ، منقول از اخبار الفضل قادیان ج۲۵ص۱۲۳، ۲۸؍مئی ۱۹۲۳ئ)
’’میں چاہتا ہوں کہ کسی قدر دوائے طاعون آپ کے لئے روانہ کروں۔‘‘
(مکتوب ۲۲؍جولائی ۱۸۹۴ء بنام ڈاکٹر رشید الدین مندرجہ الفضل ج۳۴ص۱۹۴،۳۰؍اگست ۱۹۴۶ئ)
’’اس جگہ طاعون سخت تیزی پر ہے۔ …… مکرر یہ کہ آتے وقت ایک بڑا بکس فینائل کا جو سولہ یا بیس روپے کا آتا ہے ساتھ لے آئیں۔‘‘
(مکتوب بنام نواب محمد علی خان مکتوبات احمدیہ حصہ پنجم، چہارم ص۱۱۲،۱۱۳، مکتوبات احمد جدید ج دوم ص۲۵۸)
اگر آتے وقت لاہور سے ڈس انفیکٹ کے لئے کچھ ریسکیور اور کسی قدر فینائل اور کچھ گلاب اور سرکہ لے آئیں تو بہتر ہوگا۔‘‘
(مکتوب بنام محمد علی خان، ۶؍اپریل۱۹۰۴ء مکتوبات احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۶، مکتوبات احمد جدید ج۲ ص۲۶۷)
قارئین کرام! اس قدر حفاظتی انتظامات کے باوجود جب مرزا قادیانی کے گھر میں