ثبوت مندرجہ ذیل اقتباسات سے بالکل واضح طور پر ملتا ہے۔
’’طاعون کے دنوں میں جبکہ قادیان میں طاعون زور پر تھا۔ میرا لڑکا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا جس سے لڑکا بالکل بے ہوش ہوگیا اور بیہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ اگرچہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑکا ان دنوں میں جو طاعون کا زور ہے، فوت ہوگیا تو تمام دشمن اس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اس پاک وحی کی تکذیب کریں گے کہ جو اس نے فرمایا ہے ’’انی احافظ کل من فی الدار‘‘ یعنی میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے طاعون سے بچائوں گا۔ اس خیال سے میرے دل پر وہ صدمہ وارد ہوا کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ قریباً رات کے بارے بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت ابتر ہوگئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں یہ اور ہی بلا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۴حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۸۷)
’’دوسرے دن کی صبح ہوئی تو میر ناصر صاحب کے بیٹے اسحاق کو تیز تپ چڑھا اور سخت گھبراہٹ شروع ہوگئی۔ اور دونوں طرف بن ران میں گلٹیاں نکل آئیں اور یقین ہوگیا کہ طاعون ہے… اور اگرچہ میں جانتا تھا کہ موت فوت قدیم سے ایک قانون قدرت ہے لیکن یہ خیال آیا کہ اگر خدانخواستہ ہمارے گھر میں کوئی طاعون سے مر گیا تو ہماری تکذیب میں ایک شور قیامت برپا ہوجائے گا۔ اور پھر گو میں ہزار نشان بھی پیش کروں۔ تب بھی اس اعتراض کے مقابل پر کچھ بھی ان کا اثر نہ ہوگا کیونکہ میں صدہا مرتبہ لکھ چکا ہوں اور شائع کرچکا ہوں کہ ہمارے گھر کے تمام لوگ طاعون کی موت سے بچے رہیں گے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۲۸، ۳۲۹، خزائن ج۲۲ ص۳۴۱،۳۴۲)
’’اس وقت تک خدا کا فضل وکرم ہے اور جو دو احسان ہے۔ ہمارے گھر اور آپ کے گھر میں بالکل خیریت ہے۔ بڑی غوثان کو تپ ہوگیا تھا۔ اس کو گھر سے نکال دیا ہے… آج ہمارے گھر میں ایک مہمان عورت کو جو دہلی سے آئی تھی، بخار ہوگیا ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۵ ص۱۱۵، بنام نواب محمد علی خان مورخہ ۱۶؍اپریل ۱۹۰۴ئ)
مرزاقادیانی نے اپنی مزعومہ وحی کی صداقت قائم رکھنے کے لئے اوّل طاعون زدہ لوگوں کو اپنے گھر سے باہر نکالنا شروع کر دیا۔ لیکن جب زیادہ کیس ہونے لگے تو پھر خود معہ اپنی جماعت کے باغ میں منتقل ہوگئے۔ ’’میں اس وقت تک معہ اپنی تمام جماعت کے باغ میں ہوں اگرچہ اب قادیان میں طاعون نہیں۔‘‘
(مکتوب نمبر۳، مکتوب احمدیہ ج۵ حصہ اوّل ص۳۹، مورخہ ۱۲؍مئی ۱۹۰۵ئ، مکتوبات احمدیہ جدید جلد دوم ص۴۲۴)