بعد بھی طاعون کی وبا نے قادیان میں تباہی مچا دی۔
’’اس جگہ طاعون سخت تیزی پر ہے۔ ایک طرف انسان بخار میں مبتلا ہوتا ہے اور صرف چند گھنٹوں میں مر جاتا ہے۔‘‘
(مکتوب بنام نواب محمد علی خان مندرجہ مکتوبات احمدیہ ج۵ص۱۱۲۔ مکتوبات احمدیہ جدید ج۲ص۲۵۸)
اب مرزا قادیانی کے پاس سوائے اس کے اور کوئی بات باقی نہیں رہی تھی کہ وہ اپنے گھر کو طاعونی وباء سے حفاظت کا قلعہ مخلوق اﷲ کو باور کرادیں۔ لہٰذا ایک بار پھر انہوں نے پلٹا کیا اور مشتہر کردیا۔ ’’آج کے دنوں سے تیئس ۲۳؍برس پہلے فرما دیا کہ جو شخص اس گھر میں داخل ہوگا یعنی اخلاص اور اعتقاد سے وہ طاعون سے بچایا جائے گا۔‘‘
(نزول المسیح ص۲۳،۱۹۰۲ئ، خزائن ج۱۸ص۴۰۱)‘‘
مندرجہ بالاا لہام میں مسجد میں داخل ہونے والی بات براہین احمدیہ میں درج ضرور ہے۔ لیکن وہاں پر نہ کوئی شرط عائد ہے اور نہ ہی حفاظت کی تشریح بلکہ صرف خاتمہ بالخیر کی خبر ہے ’’الم نجعل لک سہولۃ فی کل امربیت الفکروبیت الذکر ومن دخلہ کان امنا (۵۵۸؍حاشیہ درحاشیہ نمبر۴، خزائن ج۱ص۶۶۶)‘‘ مرزا قادیانی کی حساب دانی کی داد دیجئے کہ ۱۸۸۴ء سے ۱۹۰۲ء تک تیس برس ہوگئے۔ مرزا قادیانی نے اس مزعومہ الہام کی یوں تشریح کی ہے۔ ’’کیا ہم نے ہر ایک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی کہ تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر عطا کیا اور جو شخص بیت الذکر میں باخلاص وقصد تعبد وصحت نیت وحسن ایمان داخل ہوگا وہ سوئے خاتمہ سے امن میں آجائے گا۔ بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجزکتاب کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے جوا س چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے۔ اور آخری فقرہ بالا (من دخلہ کان آمنا) اس مسجد کی صفت میں بیان فرمایا ہے۔ یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے۔‘‘
قارئین! غور فرمائیے کہ بقول مرزا قادیانی جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ صرف مسجد کے لئے بیان کیا گیا نہ کہ گھر بھی اس میں شامل ہے۔ اور پھر سوئے خاتمہ سے اس کا وعدہ ہے اور کچھ نہیں بلکہ مرزا قادیانی نے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنی مندرجہ بالا تشریح کو بھی بدل دیا اور مسجد کے بجائے اپنے گھر کو شامل کردیاا ور جب مرزا قادیانی کی یقین دہانی پر لوگ ان کے گھر میں آنے لگے تو ان کو کچھ پیسہ بٹورنے کا خیال آیا تو فوراً یہ بیان جاری کردیا ’’چونکہ آئندہ اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ طاعون ملک میں پھیل جائے اور ہمارے گھر میں جس میں بعض حصوں میں مرد بھی