دور کر اور مجھے غموں سے نجات دے۔ اے میرے کریم اور میرے دشمن کو ٹکڑے ٹکڑے کر اور خاک میں ملا دے۔‘‘ اور پھر کتاب اعجاز احمدی نومبر۱۹۰۲ء میں یہ پیشینگوئی تھی۔ ’’…… خدا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ طعن کا بدلہ طعن ہے۔ پس وہی طاعون جو ان کو پکڑے گی اور جب فسق ہلاک کرنے والا حد سے بڑھ گیا تو میں نے آرزو کی کہ اب ہلاک کرنے والی طاعون چاہئے۔‘‘ (حاشیہ بہ پیشینگوئی حمامۃ البشریٰ، تذکرہ ص۵۰۸ طبع۳) میں ہے ’’اور اس کے بعد یہ الہام ہوا ’’اے بسا خانہ دشمن کہ تو ویران کردی۔‘‘ اور یہ الحکم اور البدر میں شائع کیا گیا اور پھر مذکورہ بالا دعائیں جو دشمنوں کی سخت ایذا کے بعد کی گئیں۔ جناب الٰہی میں قبول ہوکر پیشینگوئیوں کے مطابق طاعون کا عذاب ان پر آگ کی طرح برسا اور کئی ہزار دشمن جو میری تکذیب کرتا اور بدی سے نام لیتا تھا ہلاک ہوگیا۔‘‘
(اکہترواں نشان حقیقت الوحی ص۲۲۴، خزائن ج۲۲ ص۲۳۵ تا ۲۳۶)
بددعائیں نہ کہ بقول مرزا قادیانی دعائیں مانگنے کے بعد مرزا قادیانی کو جو مزعومہ الہام فارسی میں ہوا۔ اس کے معنی ہیں ’’اے وہ کہ تو جس نے بہت سے مخالفین کے گھر برباد کردئیے۔‘‘ مرزا قادیانی نے نہ تو اس کے معنی لکھے ہیں اور نہ اسی کچھ تشریح کی ہے۔ غالباً ان کے خدا نے ان کو یہ نہیں بتایا کہ ’’تو‘‘ کی ضمیر کس کی طرف راجع ہے۔ مخلوق اﷲ کی تباہی کے لئے بددعائیں نہ کہ دعائیں مانگنا ایک ایسے شخص کے لئے جو آنحضرت محمد رسول اﷲﷺ کی کامل پیروی اور اتباع کرنے کا دعوے دار ہواا ور جس پر مندرجہ ذیل مزعومہ الہامات نازل ہوئے ہوں، کہاں تک جائز ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور وہ مزعومہ الہامات یہ ہیں ’’کیا تو اس غم میں اپنے تئیں ہلاک کردے گا کہ یہ لوگ کیوں نہیں ایمان لاتے۔ جس چیز کا تجھے علم نہیں۔ اس کے پیچھے مت پڑ اور ان لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں۔ میرے ساتھ مخاطبت مت کرو، وہ غرق کئے جائیں گے۔‘‘
’’اس جگہ فتنہ ہے پس صبر کر جیسے اولوالعزم لوگوں نے صبر کیا ہے۔‘‘ خبردار ہو یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے۔ تاکہ وہ ایسی محبت کرے جو کامل محبت ہے۔ اس خدا کی محبت جو نہایت عزت والااور نہایت بزرگ ہے۔ وہ بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں۔ لوگوں کے رفق اور نرمی سے پیش آ، اور ان پر رحم کر تو بمنزلہ موسیٰ کے ہے اور ان کی باتوں پر صبر کر۔ اور میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے تاکہ سب لوگوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں۔ مندرجہ بالا ترجمے مرزا قادیانی نے خود لکھے ہیں۔ غور فرمائیے کہ بددعا کے متعلق بالکل صاف طورپر نہی کی گئی ہے۔ بلکہ دشمنوں کا ذکر کرنے سے بھی منع کردیا گیا ہے۔ حوالہ کے لئے دیکھئے (براہین احمدیہ حصہ چہارم، پہلی فصل صفحات ۳۱۸،۵۰۶،۳۳۴، ۳۱۹،۵۰۸،۳۳۵،۳۲۱،۵۱۰،۳۷۷۔۳۲۲،۵۱۱؍۱۸۸۴ئ)