رائے یہ ہے کہ یہ بلائے طاعون گائے کی وجہ سے آئی ہے۔ اگر گورنمنٹ یہ قانون پاس کردے کہ اس ملک میں گائے ہرگز ہرگز ذبح نہ کی جائے تو پھر دیکھئے طاعون کیونکر دفع نہ ہوجاتی ہے۔
اب اے ناظرین! خودسوچ لو کہ اس قدر متفرق اقوال اور دعاوی سے کس قول کو دنیا کے آگے صریح اور بدیہی طورپر فروغ ہوسکتا ہے؟ یہ تمام اعتقادی امور ہیں اور اس نازک وقت میں جب تک کہ دنیا ان عقائد کا فیصلہ کرے خود دنیا کا فیصلہ ہوجائے گا۔ اس لئے وہ بات قبول کے لائق ہے جو جلد تر سمجھ میں آسکتی ہے اور جو اپنے ساتھ کوئی ثبوت رکھتی ہے۔ ’’پس اس بیماری کے دفع کے لئے وہ پیغام جو خدا نے مجھے دیا ہے۔ وہ یہی ہے کہ لوگ مجھے سچے دل سے مسیح موعود مان لیں۔(دافع البلاء ص۱۔۱۸، خزائن ج۱۸ ص۲۲۱، اپریل ۱۹۰۲ئ)‘‘ یہ تو ہے فلسفہ اب اس کی سرگزشت ملاحظہ فرمائیے۔
جب ۱۸۹۸ء میں طاعون کی وباء ہندوستان میں پھیلی تو مرزا غلام احمد قادیانی (جن کو آئندہ اس مضمون میں مرزا قادیانی ہی لکھا جائے گا۔) نے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے حسب عادت فوراً مشتہر اور شائع کردیا۔ ’’حمامتہ البشریٰ (فروری ۱۸۹۴ئ) میں جو کئی سال طاعون پیدا ہونے سے پہلے شائع کی تھی میں نے یہ لکھا تھا کہ میں نے طاعون پھیلنے کے لئے دعا کی ہے۔ سو وہ قبول ہوکر ملک میں طاعون پھیل گئی۔‘‘ (انہترواں ۶۹نشان حقیقت الوحی ص۲۲۴، خزائن ج۲۲ ص۲۳۵)‘‘ براہین احمدیہ ۱۸۸۴ء میں بباعث تکذیب طاعون پیدا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی۔ سو پچیس ۲۵؍برس بعد پنجاب میں طاعون پھیل گئی۔ (سترویں۷۰؍نشان حقیقۃ الوحی ص۲۲۴، خزائن ج۲۲ ص۲۳۵)مرزا قادیانی کی حساب دانی کہ ۱۸۸۴ء سے ۱۸۹۸ء تک پچیس سال ہوگئے قابل داد ہے۔ ’’براہین احمدیہ کے آخری اوراق کو دیکھا تو ان میں یہ الہام درج تھا: ’’دنیا میں ایک نذیر آیا اور دنیا نے اس کو قبول نہ کیا پر خدا اس کو قبول کرے گا اور زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ اس وقت دنیاکہاں تھی اور ہمارا دعویٰ بھی نہ تھا۔ لیکن اس الہام میں ایک پیشینگوئی تھی جو اس وقت طاعون پر صادق آرہی ہے اور زور دار حملوں سے مراد طاعون ہے۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ حصہ ہفتم ص۵۲۲، مرتبہ محمد منظور الٰہی قادیانی لاہوری)‘‘ مندرجہ بالا مزعومہ الہام کی عبارت قابل غور ہے۔ قادیانی کے خدا نے خبر دی ’’دنیا میں ایک نذیر آیا‘‘ نہ کہ دنیامیں ایک نذیر بھیجا اور پرخدا اس کو قبول کرے گا۔
یعنی ماموریت کی نفی ہے کیونکہ مقبول ہوکر ہی ماموریت کا منصب ملتا ہے۔ یہاں پر مقبولیت کا وعدہ زمانۂ مستقبل میں ہے۔ لہٰذا ماموریت مقبولیت کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔ اس سے